اسلامی عقیدہ سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

شرک کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾
(4-النساء:116)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ یہ گناہ ہر گز نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، تو وہ یقیناً بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى : ﴿ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
(6-الأنعام:88)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو وہ عمل کرتے تھے برباد ہو جاتے ۔ “

حدیث 1

«عن أبى بكرة رضى الله عنه قال قال النبى صلى الله عليه وسلم : ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ ثلاثا قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين»
صحیح بخاری، رقم : 3654.
”حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ارشاد فرمایا: کیا آپ لوگوں کو سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ خبر دوں؟ صحابہ نے کہا! کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ “

اللہ عز وجل عرش پر مستوی ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾
(7-الأعراف:54)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک تمھارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہو گیا، وہ دن کو رات سے اس طرح ڈھانپتا ہے کہ وہ (رات ) جلدی سے اس ( دن ) کو آلیتی ہے، اور اس نے سورج، چاند اور تارے اس طرح پیدا کیے کہ وہ سب اس (اللہ ) کے حکم کے پابند کر دیے گئے ہیں۔ آگاہ رہو! پیدا کرنا اسی کے لیے روا ہے، اللہ رب العالمین بہت بابرکت ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ‎﴾
(20-طه:5)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ رحمن ہے، عرش پر مستوی ہے۔ “

حدیث 2

«وعن معاوية الحكم السلمي قال: قلت يا رسول الله! أفلا أعتقها؟ قال: اثتني بها ، فأتيته لها، فقال لها: أين الله؟ قالت: فى السماء. قال: من أنا؟ قالت: انت رسول الله. قال: أعتقها فإنها مؤمنة»
صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1199 .
”اور حضرت سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے لاؤ۔ جب وہ لونڈی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئی تو آپ نے اس سے سوال کیا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں ہے۔ پھر فرمایا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہ ایمان والی ہے اسے آزاد کر دو۔ “

حدیث 3

«وعن أبى هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما قضى الله الخلق كتب فى كتاب عنده: غلبت أو قال: سبقت رحمتي غضبي ، قال فهي عنده فوق العرش»
صحيح ابن حبان، رقم : 6144۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کا فیصلہ کیا تو ایک کتاب میں لکھا جو کہ اس کے پاس ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی یا میری رحمت غصہ پر سبقت لے گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ کتاب عرش پر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ “

حدیث 4

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار، ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ، ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم ، كيف تركتم عبادى؟ فيقولون: تركناهم وهم يصلون، وأتيناهم وهم يصلون»
صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة، رقم : 555 ، صحیح مسلم، رقم : 1432 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے ہیں اور نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس تھے وہ چڑھ جاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم نے ان کو چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گئے وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ “

علم غیب صرف اللہ عزوجل ہی کو ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ ﴿قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ‎﴾
(6-الأنعام:50)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (اے نبی !) کہہ دیجیے: میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہہ دیجیے: کیا نابینا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟ پھر کیا تم غور نہیں کرتے ؟ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ﴾
(11-هود:31)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں کہتا ہوں کہ بے شک میں فرشتہ ہوں اور نہ میں انھیں، جنھیں تمھاری آنکھیں حقیر دیکھتی ہیں، ( یہ ) کہتا ہوں کہ اللہ انھیں کوئی بھلائی نہیں دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے نفسوں میں ہے۔ بے شک (اگر میں نے یہ باتیں کہیں ) تب میں ضرور ظالموں میں سے ہوں گا۔“

حدیث 5

«وعن الربيع بنت معوذ قالت: دخل على النبى صلى الله عليه وسلم غداة بني على فجلس على فراشي كمجلسك منى وجويريات يضر بن بالدق يند بن من قتل من آبائهن يوم بدر حتى قالت جارية: وفينا نبي يعلم ما فى غد، فقال النبى : لا تقولي هكذا ، وقولى ما كنت تقولين»
صحيح البخارى، كتاب المغازي، رقم : 4001.
” اور سید نا معوذ بن عفراء کی بیٹی ربیع سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے ہاں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جب میں نکاح کے بعد اپنے شوہر کے پاس آئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر بیٹھے جیسا کہ تم بیٹھے ہو۔ ( یہ بات سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا نے حدیث کے راوی خالد بن ذکوان سے کہی) ہماری کچھ لڑکیاں دف بجارہی تھیں اور اپنے ان باپ دادا کی خوبیاں بیان کر رہی تھیں جو غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ پھر اچانک ایک لڑکی نے یوں کہہ دیا: اور ہم میں ایسا نبی موجود ہے جو کل ہونے والی باتوں کو جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بات نہ کہ، وہی کچھ کہہ جو تو کہہ رہی تھی۔“

حدیث 6

«وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: من حدثك أن محمدا صلی اللہ علیہ وسلم رأى ربه فقد كذب، وهو يقول: لا تدركه الأبصار ومن حدثك أنه يعلم الغيب فقد كذب، وهو يقول: لا يعلم الغيب إلا الله»
صحیح بخاری، کتاب التوحيد والرد على الجهمية وغيرهم، رقم : 7380.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: جس شخص نے تمہیں خبر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، پس وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اس کا ادراک آنکھیں نہیں کرسکتیں“ اور جو کوئی تمہیں خبر دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے، پس تحقیق اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔“

غیر اللہ کو پکارنے کی مذمت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
(5-المائدة:76)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (اے نبی!) کہہ دیجیے: کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تمھاری لیے نقصان اور نفع کا کوئی اختیار نہیں رکھتی؟ اور اللہ ہی تو خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴾
(6-الأنعام:71)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (اے نبی !) کہہ دیجیے: کیا ہم اللہ کے سوا ان کو پکاریں جو ہمیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اور جب اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اس کے بعد ہم الٹے پاؤں پھر جائیں، اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا ہو، وہ زمین میں حیران پھرتا ہو، اس کے کچھ ساتھی ہوں، جو اسے سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہوں کہ ہمارے پاس آجاؤ ؟ کہہ دیجیے: بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم سب جہانوں کے رب کے فرمانبردار ہو جائیں۔ “

حدیث 7

«وعن عبد الله قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم كلمة وقلت أخرى ، قال النبى : من مات وهو يدعو من دون الله ندا دخل النار ، وقلت أنا: من مات وهو لا يدعو لله ندا دخل الجنة»
صحیح بخاری، رقم : 4497 ، صحیح مسلم، رقم : 94.
” اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک حدیث میں ایک بات نبی صلى الله عليہ وسلم نے کہی اور دوسری میں نے کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص غیر اللہ کو اس کا شریک ٹھہراتا ہوا مر گیا وہ جہنم میں داخل ہو گیا۔ میں نے کہا: جو اس حال میں مرا کہ اس نے کسی کو اس کا شریک نہیں بنایا، پس وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ “

حدیث 8

«وعن النعمان بن بشير قال: سمعت النبى صلی اللہ علیہ وسلم : يقول: الدعاء هو العبادة ثم قرأ: (وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»
سنن ترمذی، رقم : 2969 ۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ورسوا ہو کر داخل ہوں گے۔“

مختار کل صرف اللہ عزوجل ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ‎﴾
(7-الأعراف:188)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے: میں اپنی جان کے لیے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو ڈرانے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں۔“

حدیث 9

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزل الله: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ قال: يا معشر قريش أو كلمة نحوها اشتروا أنفسكم ، لا أغنى عنكم من الله شيئا، يا بني عبد مناف ، لا أغني عنكم من الله شيئا، يا عباس بن عبد المطلب، لا أغنى عنك من الله شيئا، ويا صفية عمة رسول الله لا أغنى عنك من الله شيئا، ويا فاطمة بنت محمد سلينى ما شئت من مالي ، لا أغني عنك من الله شيئا»
صحیح بخاری، کتاب التفسير ، رقم : 4771.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت اتری ﴿وَاَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (اے محمد ! ) اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا: اے قریش کے لوگو! ایسا ہی جملہ کہا ، اپنی جانیں بچاؤ، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکوں گا، اے عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آسکوں گا، اے صفیہ ! میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہاری کسی کام نہیں آسکوں گا، اور اے فاطمہ! میرے مال سے جو چاہو مانگ لو، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکوں گا۔“

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نور من نور اللہ تھے؟

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ‎ ﴿٩٣﴾ ‏ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولًا ‎ ﴿٩٤﴾ ‏
(17-الإسراء:93، 94)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو، یا تو آسمان میں چڑھ جائے ، اور ہم تیرے چڑھنے پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ تو ہم پر ایک کتاب اتار لائے جسے ہم پڑھیں، کہیے: میرے رب پاک ہے، میں تو بس ایک بشر رسول ہوں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ‎﴾
(41-فصلت:6)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” کہہ دے میں تو تمھارے جیسا ایک بشر ہی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، سو اس کی طرف سیدھے ہو جاؤ اور اس سے بخشش مانگو اور مشرکوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔“

حدیث 10

«وعن عمرة ، قالت: قيل لعائشة رضي الله عنها ما ذا كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيته؟ قالت كان بشرا من البشر؟ يقلى ثوبه، ويحلب شاته ويحدم نفسه»
شمائل ترمذی، رقم : 344 ، صحیح ابن حبان : 488/12، 489، رقم : 5675۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں آکر کیا کام کرتے ہیں؟ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( جنس انسان ) میں سے بشر تھے، کپڑے کو صاف کرتے اور اپنی بکری کا دودھ نکالتے ، اور خدمت کرتے اپنے نفس کی یعنی اپنے ذاتی کام کاج خود کرتے تھے۔ “

حدیث 11

«وعن رافع ابن خديج قال: قدم نبي الله صلى الله عليه وسلم المدينة ، وهم يأبرون النخل ، يقولون: يلقحون النخل ، فقال ما تصنعون؟ قالوا: كنا نصنعه: قال: لعلكم لولم تفعلوا كان خيرا فتركوه ، فنفضت أوقال فنقصت ، قال: فذكروا ذلك له فقال: إنما أنا بشر ، إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوه به ، وإذا أمرتكم بشيء من رائي، فإنما أنا بشر »
صحيح مسلم ، كتاب الفضائل، رقم : 2362.
” اور حضرت رافع بن خدیجی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ کھجوروں کی تابیر کرتے تھے۔ کھجوروں کی پیوند کاری کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ایسا کرتے چلے آئے ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا۔ انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو کھجوریں کم اُتریں، صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ تو آپ نے فرمایا: میں بشر ہوں جس وقت تمہیں دین کے بارے میں کوئی حکم دوں، اسے فوراً قبول کر لیا کرو۔ اور جب میں اپنی رائے سے حکم دوں تو میں بشر ہوں۔ “

حدیث 12

«وعن عبد الله، قال: أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلى الظهر خمسا ، فقيل له: ازيد فى الصلوة؟ فقال: وما ذاك؟ قالوا: صليت خمسا فسجد سجدتين بعد ما سلم ، وفي رواية ، قال: إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني ، وإذا شك احدكم فى صلوته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم يسجد سجدتين »
صحيح بخارى، كتاب الصلاة، رقم : 401 ، 1226 .
”اور سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پانچ رکعات پڑھی، پس پوچھا گیا کیا نماز میں زیادتی کر دی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تحقیق میں تمہاری مثل بشر ہوں بھول جاتا ہوں جیسے کہ تم بھولتے ہو، پس جس وقت میں بھولوں، مجھے یاد دلایا کرو۔ اور جس وقت تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے ، پس چاہیے کہ وہ صحیح سوچے، اور اس پر اپنی نماز کو پورا کرے، پھر سلام پھیرے اور دو سجدے (سجدہ سہو) کرے۔ “

بدعت کی مذمت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ‎﴾
(3-آل عمران:85)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
(6-الأنعام:153)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور یقیناً یہ میرا راستہ سیدھا ہے، لہذا تم اسی کی پیروی کرو، اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، وہ تمھیں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے۔ اللہ نے تمھیں اس کی تاکید کی ہے، تاکہ تم پر ہیز گاری اختیار کرو۔“

حدیث 13

«وعن أبى حازم قال: سمعت سهلا يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: أنا فرطكم على الحوض ، من ورد شرب ، ومن شرب لم يظما ابدا ، وليردن على أقوام أعرفهم ويعرفوني ، يحال بيني وبينهم ، قال أبو حازم: فسمع النعمان بن أبى عياش وأنا أحدثهم هذا الحديث ، فقال: هكذا سمعت سهلا يقول؟ قال: فقلت: نعم؟»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل ، رقم 5968 .
”اور ابو حازم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت سہل رضی الله عنہ ( بن سعد ساعدی) سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: میں تم سے پہلے (اپنے) حوض پر پہنچنے والا ہوں، جو اس حوض پر پینے کے لیے آجائے گا، پی لیے گا اور جو پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہو گا۔ میرے پاس بہت سے لوگ آئیں گے میں انہیں جانتا ہوں گا، وہ مجھے جانتے ہوں گے، پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ حائل کر دی جائے گی۔ ابو حازم نے کہا: میں یہ حدیث (سننے والوں کو) سنا رہا تھا کہ نعمان بن ابی عیاش نے بھی یہ حدیث سنی تو کہنے لگے : آپ نے سہل رضی اللہ عنہ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ “

حدیث 14

«قال: وأنا أشهد على أبى سعيد الخدري لسمعته يزيد فيقول: إنهم مني ، فيقال: إنك لا تدري ما عملوا بعدك ، فأقول: سحقا سحقا لمن بدل بعدي»
صحيح مسلم ، کتاب الفضائل، رقم : 5969.
”اور انہوں نے (نعمان بن ابی عیاش) نے کہا: اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اس (حدیث) میں مزید الفاظ یہ بیان کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما ئیں گے: یہ میرے (امتی ) ہیں، تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا۔ تو میں کہوں گا: دوری ہو، ہلاکت ہو! ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد (دین میں) تبدیلی کر دی۔ “

حدیث 15

«وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول الله : من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد»
صحیح بخاری، کتاب الصلح ، رقم : 2967، صحیح مسلم، كتاب الأقضية، رقم:1718 ۔
”اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے۔ وہ مردود ہے۔ “

دین میں غلو کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا﴾
(4-النساء:171)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو ۔ بے شک مسیح عیسی ابن مریم تو اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی ہے جسے اس نے مریم کی طرف ڈالا، اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہے، چنانچہ تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ معبود تین ہیں۔ اس سے باز آجاؤ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، بے شک اللہ ہی واحد معبود ہے، وہ اس (امر) سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور اللہ بطور کارساز کافی ہے۔ “

حدیث 16

«وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة العقبة وهو على ناقته: وإياكم والغلو فى الدين فانما أهلك من قبلكم الغلو فى الدين»
سنن نسائی، رقم : 3059 ، سنن ابن ماجة رقم : 3029 ، مسند ابی یعلی، رقم : 2427 ، سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 1283.
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے کے دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے، تب آپ نے ارشاد فرمایا: تم دین میں غلو کرنے سے بچے رہنا کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے
ہلاک کر دیا تھا۔ “

حدیث 17

«وعن عمر الله يقول على المنبر: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم فإنما أنا عبده فقولوا: عبد الله ورسوله»
صحیح بخاری، کتاب الانبياء رقم : 344 .
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ منبر پر کھڑے کہہ رہے تھے، میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرا درجہ اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح کہ نصاری نے ابن مریم کا درجہ بڑھا دیا تھا، پس میں تو اس کا بندہ ہوں، پس تم یہ کہو کہ عبده ورسوله آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“

عقید و شفاعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ ‎﴾
(53-النجم:26)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کچھ کام نہیں آتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کے لیے چاہے اور (جسے ) پسند کرے۔“

حدیث 18

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لكل نبي دعوة مستجابة، فتعجل كل نبي دعوته، وإني اختبات دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة ، فهي نائلة إن شاء الله، من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا»
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 491 ، شرح السنة، رقم : 1237، مسند أبو عوانة، رقم : 90.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول کی جاتی تھی۔ ہر نبی نے اپنی اس دعا میں جلدی کی اور میں نے دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے۔ ان شاء اللہ میری شفاعت امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ “

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و احترام

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
(2-البقرة:137)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پاگئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے ) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہو جائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‎﴾
(4-النساء:115)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جس شخص کے سامنے واضح شکل میں ہدایت آجائے اور اس کے بعد وہ رسول کی مخالفت کرے، اور مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے کی پیروی کرے، تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ جانا چاہے اور ہم اسے جہنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔“

حدیث 19

«وعن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه»
صحیح بخاری کتاب مناقب اصحاب النبی صلى الله عليه وسلم ، رقم : 3673، صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، رقم : 6487.
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو، پس اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کی مثل سونا بھی خرچ کر دے تو پھر بھی وہ صحابہ کے ایک مد (650 گرام) اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا۔ “

اہل بیت سے محبت کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ‎ ﴿٣٣﴾ ‏ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ‎ ﴿٣٤﴾ ‏
(33-الأحزاب: 33، 34)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔ اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔ “
وَقَالَ الله تَعَالَى: ﴿ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴾
(42-الشورى:23)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی ۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا ، نہایت قدردان ہے۔ “

حدیث 20

«عن زيد بن أرقم رضى الله عنه قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا ، بماء يدعى خما، بين مكة والمدينة ، فحمد الله واثنى عليه ، ووعظ وذكر ، ثم قال: أما بعد ، آلا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتى رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين : أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور ، فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به فحث على كتاب الله ورغب فيه ، ثم قال: واهل بيتي ، أذكركم الله فى أهل بيتى أذكركم الله فى أهل بيتي»
صحیح مسلم کتاب الفضائل، من فضائل على ابن ابى طالب رضی اللہ عنہ ، رقم : 6225 .
” اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جسے خم کہتے ہیں (حجۃ الوداع سے واپسی پر) ایک روز رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وہاں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی، وعظ ونصیحت ارشاد فرمائی ، پھر فرمایا: اما بعد، اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں (جسے موت آنی ہے) قریب ہے کہ اللہ کا فرستادہ (یعنی فرشتہ ) میرے پاس آئے اور میں اسے لبیک کہوں۔ (یاد رکھو!) میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت ہے اور روشنی ہے۔ اس سے احکام لینا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے پر ابھارا اور اس کی ترغیب دلائی۔ پھر ارشاد فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ اپنے اہل بیت کے معاملہ میں، میں تمہیں اللہ ( کا خوف) یاد دلاتا ہوں۔ “

عقیدہ عذاب قبر

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾
(6-الأنعام:93)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
” اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہیں کی گئی، اور جس نے کہا کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر سکتا ہوں جیسی اللہ نے نازل کی ہے۔ کاش! آپ ظالموں کو اس حال میں دیکھیں جب وہ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوتے ہیں، اور فرشتے ( یہ کہتے ہوئے) اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتیں گھڑتے تھے اور اس کی آیتیں سن کر تکبر کرتے تھے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾
(9-التوبة:101)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور تمھارے آس پاس جو دیہاتی ہیں ان میں بعض منافق ہیں، اور بعض اہل مدینہ بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ (اے نبی!) آپ انھیں نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں۔ ہم جلد انھیں دوہری سزا دیں گے، پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“

حدیث 21

«وعن البراء بن عازب عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ (14-إبراهيم:27) قال: نزلت فى عذاب القبر ، فيقال له من ربك؟ فيقول: ربي الله ونبني محمد فذلك قوله عز وجل ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ »
صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها ، رقم : 7219.
”اور سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ (14-إبراهيم:27) کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (قبر میں میت سے کہا جاتا ہے ) کہ تیرا رب کون ہے، پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ اور میرے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾

حدیث 22

«وعن ابن عباس رضى الله عنه مر النبى صلى الله عليه وسلم على قبرين فقال: إنهما ليعذبان وما يعدبان من كبير ، ثم قال: بلى ، أما أحدهما فكان يسعى بالنميمة ، وأما أحدهما فكان لا يستتر من بوله ، قال: ثم أخذ عودا رطبا فكسره باثنتين ثم غرز كل واحد منهما على قبر ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1378 .
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، بلکہ ان میں سے ایک پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دوٹکڑے کر کے دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوجائیں، شاید اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے۔ “

حدیث 23

«وعن عائشة رضي الله عنها ولا أن يهودية دخلت عليها فذكرت عذاب القبر فقالت لها أعاذك الله من عذاب القبر فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عذاب القبر ، فقال: نعم ، عذاب القبر ، قالت عائشة رضي الله عنها : فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلى صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر ، زاد غندر عذاب القبر حق»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1387 .
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت ان کے پاس آئی ، پس اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے ، پس عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں ! عذاب قبر حق ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے ہمیشہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز بھی نہیں پڑھی ،مگر اس میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگی۔“

قبر پرستی کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾
(27-النمل:80)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے ، اور نہ آپ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وہ پیٹھ کے بل پھر جائیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎﴾
(41-فصلت:37)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اسی کی نشانیوں میں سے رات اور دن ، اور سورج اور چاند ہیں، نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔“

حدیث 24

«وعن جندب قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم ، قبل أن يموت بخمس، وهو يقول: إنى أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل ، فإن الله تعالى قد اتخذني خليلا ، كما اتخذ إبراهيم خليلا ، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا ، لاتخذت أبا بكر خليلا ، ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبياء هم مساجد ، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد فإني أنهاكم عن ذلك»
صحيح مسلم، کتاب المساجد ، رقم : 1188.
”اور حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا: کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنالیا ہے، جیسا کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد میں یا سجدہ گاہ بنا لیے کرتے تھے، خبردار ! تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، بے شک میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔ “

حدیث 25

«وعن عائشة وعبد الله بن عباس قالا : لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طفق يطرح خميصة له على وجهه ، فإذا اغتم بها كشفها عن وجهه ، فقال: وهو كذلك لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد يحدر ما صنعوا »
صحیح بخاری، کتاب الصلوة، رقم : 436 ، صحيح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 529.
” اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملک الموت نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی اور جب دم گھٹنے لگا تو ہٹا دی، اس موقعہ پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو اس فعل قبیح سے ڈرا رہے تھے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحذیر اور یہود و نصاریٰ پر لعنت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر گھر سے باہر بنا کر لوگوں کے لیے ظاہر کر دی جاتی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈر گئے کہ ان کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے۔“

حدیث 26

«عن قيس بن سعد قال: أتيت الحيرة فرأيتهم يسجدون لمرزبان لهم ، فقلت: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حق أن يسجد له، قال: فأتيت النبى ، فقلت: إنى أتيت الحيرة فرأيتهم يسجدون لمرزبان لهم ، فأنت يا رسول الله أحق أن نسجد لك ، قال: أرأيت لو مررت بقبرى أكنت تسجد له؟ قال: قلت: لا ، قال: فلا تفعلوا»
صحیح بخاری، رقم : 1344 ، صحیح مسلم، رقم : 2296، سنن أبوداؤد، رقم : 2140 .
”اور حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یمن کے شہر حیرہ آیا تو وہاں کے لوگوں کو اپنے حاکم کے آگے سجدہ کرتے دیکھا، میں نے خیال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کے زیادہ حق دار ہیں، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے حیرہ کے لوگوں کو اپنے حاکم کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا ہے، حالانکہ آپ سجدہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا بتاؤ کہ اگر تمہارا گزر میری قبر سے ہو تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کرو گے؟ میں نے عرض کیا : نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اب بھی نہ کرو۔“

حدیث 27

«وعن جبير بن مطعم ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن لي أسماء ، أنا محمد، وأنا أحمد، وأنا الماحي الذى يمحو الله بي الكفر ، وأنا الحاشر الذى يحشر الناس على قدمي، وأنا العاقب الذى ليس بعده أحد»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6106 .
”اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا ) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے، اور میں حاشر ( جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے، اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا ہوں) کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“

عقیدہ ختم نبوت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾
(33-الأحزاب:40)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “

حدیث 28

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فضلت على الأنبياء بسي: أعطيت جوامع الكلم ، ونصرت بالرعب ، وأحلت لى المغانم ، وجعلت لي الأرض طهورا ومسجدا، وأرسلت إلى الخلق وختم بي النبيون»
صحيح مسلم ، کتاب المساجد ، رقم : 1167 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے چھ چیزوں میں انبیاء کرام علیہ السلام پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ۔ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کر دیا گیا۔ روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنا دیا گیا۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ “

عقیدہ حیات مسیح عیسی علیہ السلام

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾
(3-آل عمران:55)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” جب اللہ نے کہا: اے عیسی ! بے شک میں تجھے پورا لے لونگا اور اپنی طرف اٹھا لونگا اور ان کافروں سے تجھے پاک کر دونگا، اور جن لوگوں نے تیری پیروی کی، انھیں کافروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا، پھر تمھیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور میں تمھارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کر دونگا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ ﴿وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ‎ ﴿١٥٧﴾ ‏ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎ ﴿١٥٨﴾ ‏ وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ‎ ﴿١٥٩﴾ ‏
(4-النساء:157تا 159)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا ، حالانکہ انھوں نے نہ انھیں قتل کیا اور نہ انھیں سولی پر چڑھایا بلکہ انھیں شبہے میں ڈال دیا گیا۔ اور بے شک جنھوں نے عیسی کے بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور ان کے متعلق شک میں ہیں۔ ان لوگوں کے پاس ان کے بارے میں کوئی علم نہیں سوائے گمان کی پیروی کے، اور انھوں نے یقیناً انھیں قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ بڑا زبردست، بہت حکمت والا ہے۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ بچے گا جو عیسی پر ان کی موت سے پہلے ایمان نہ لے آئے ، اور قیامت کے دن وہ ان سب پر گواہ ہوں گے۔“

حدیث 29

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله : والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا ، فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الواحدة خير من الدنيا وما فيها»
صحيح البخارى، كتاب أحاديث الانبياء، رقم : 3448.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، احکام نافذ کرنے والے اور عدل کرنے والے، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ حتی کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور جو اس میں ہے، اس سے بہتر ہوگا۔“

حدیث 30

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وإمامكم منكم؟»
صحیح بخارى، كتاب أحاديث الانبياء، رقم : 3449.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمھاری اس وقت کیسی شان ہوگی جب تمھارے درمیان عیسی ابن مریم نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا ؟ “

قبروں کو پکی اور اونچی کرنے کی مذمت حال

حدیث 31

«وعن أبى الهياح الأسدي قال: قال لي على ابن أبى طالب: ألا أبعتك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ أن لا تدع تمثالا إلا طمسته ، ولا قبرا مشرفا إلا سويته»
صحیح مسلم کتاب الجنائز، رقم : 969 ، سنن ابو داؤد، رقم : 3218، سنن ترمذی، رقم : 1049.
” اور جناب ابوالہیاج اسدی سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر کہا کہ میں آپ کو ایسے کام پر مامور کرتا ہوں، جس پر پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مامور کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم ارشاد فرمایا تھا کہ: اے علی ! تمہیں جو بت اور تصویر نظر آئے اسے مٹادو اور جو اونچی قبر دکھائی دے اسے دیگر قبروں کے برابر کردو ۔ “

جہالت کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾
(71-نوح:23)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور انھوں نے کہا تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ود کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔“

حدیث 32

«وعن ابن عباس رضى الله عنه : صارت الأوثان التى كانت فى قوم نوح فى العرب بعد ، أما ود: كانت لكلب بدومة الجندل، وأما سواع ، كانت لهذيل ، وأما يغوت: فكانت لمراد ثم لبني عطيف بالجوف عند سيا، وأما يعوق: فكانت لهمدان وأما نسر: فكانت لحمير ، لآل ذي الكلاع ، أسماء رجال صالحين من قوم نوح ، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم أن انصبوا إلى مجالسهم التى كانوا يجلسون أنصابا وسموها بأسمائهم ففعلوا، فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك وتنسخ العلم عبدت»
صحیح بخاری کتاب التفسير ، رقم : 4920.
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ﴾ (71-نوح:23) یعنی انہوں نے کہا، نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ود کو اور نہ ہی سواع اور یغوث کو اور نہ یعوق اور نسر کو ۔ فرماتے ہیں کہ یہ قوم نوح کے نیک لوگوں کے نام ہیں۔ جب یہ انتقال کر گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر یہ بیٹھتے تھے، وہاں ان کی یادگاری پتھر نصب کر دو اور ان پتھروں کو ان کے نام دے دو، انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی حتی کہ یہ لوگ بھی فوت ہو گئے اور ان کی اولادیں اور نسلیں آگئیں، جو ان کی یادگاروں کے متعلق سے صحیح علم فراموش کر چکی تھیں، انہوں نے ان کی پوجا شروع کر دی۔“

غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کی مذمت

قالَ اللهُ تَعَالَى: ‎ ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎ ﴿١٦٢﴾ ‏ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ‎ ﴿١٦٣﴾ ‏
(6-الأنعام:162، 163)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے: بے شک میری نماز ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی (بات یعنی توحید ) کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔“

حدیث 33

«وعن على بن أبى طالب، فأتاه رجل فقال: ما كان النبى صلی اللہ علیہ وسلم يسر إليك؟ قال: فغضب وقال: ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يسر إلى شيئا يكتمه الناس ، غير أنه قد حدثني بكلمات أربع . قال: فقال ما هن يا أمير المؤمنين! قال: قال: لعن الله من لعن والده، ولعن الله من ذبح لغير الله ، ولعن الله من آوى محدثا ، ولعن الله من غير منار الارض»
صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، رقم : 5124.
” اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس آئے، اور کہنے لگا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو راز داری سے کہا تھا؟ آپ ناراض ہوئے اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی راز نہیں بتایا جس کو لوگوں سے چھپایا ہو، البتہ آپ نے چار باتیں بتائیں: اللہ تعالیٰ کی اس شخص پر لعنت ہو جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے اور اللہ تعالیٰ کی اس شخص پر لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت بھیجے اور اللہ تعالیٰ کی اس شخص پر لعنت ہو جو کسی بدعتی کو پناہ دے اور اللہ تعالیٰ کی اس شخص پر لعنت ہو جو زمین کے نشانات تبدیل کرے۔ “

جادوٹونا اور کہانت کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ ‎
(2-البقرة:102)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا، لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے ) جو بابل میں دوفرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی، حالانکہ وہ دونوں کسی ایک کو نہیں سکھاتے تھے ، یہاں تک کہ کہتے ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، سو تو کفر نہ کر ۔ پھر وہ ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے جس کے ساتھ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے اور وہ اس کے ساتھ ہرگز کسی کو نقصان پہنچانے والے نہ تھے مگر اللہ کے اذن کے ساتھ ۔ اور وہ ایسی چیز سکھتے تھے جو انھیں نقصان پہنچاتی اور انھیں فائدہ نہ دیتی تھی۔ حالانکہ بلاشبہ یقیناً وہ جان چکے تھے کہ جس نے اسے خریدا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور بے شک بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا ۔ کاش ! وہ جانتے ہوتے۔“

حدیث 34

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أتى كاهنا أوعرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد»
مسند احمد : 429/2۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آیا، اور اس کے اقوال کی تصدیق کی تو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ شریعت کا انکار کیا۔ “

حدیث 35

«وعن حفصة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أتى عرافا فسأله عن شتي لم تقبل له صلاة أربعين ليلة»
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم : 2230 ، مسند احمد، رقم : 16638 .
” اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی نجومی کے پاس آ کر کوئی بات پوچھے اور اس کی تصدیق بھی کرے تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ “

حرمت موسیقی

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾
(31-لقمان:6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں، جو دلفریب (غافل کر دینے والا) کلام خریدتے ہیں تا کہ وہ علم کے بغیر اللہ کی راہ (دین) سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق اڑائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى:‎ ﴿أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ‎ ﴿٥٩﴾ ‏ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ‎ ﴿٦٠﴾ ‏ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ ‎ ﴿٦١﴾
(53-النجم:59تا61)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔ اور تم غافل ہو۔“

حدیث 36

«وعن أبى مالك الأشعري ، والله ما كذبني سمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم يقول: ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير ، والخمر والمعازف ، ولينزلن أقوام إلى جنب علم يروح عليهم بسارحة لهم يأتيهم يعنى الفقير لحاجة فيقولون: ارجع إلينا غدا، فيبيتهم الله، ويضع العلم ، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة »
صحیح بخاری، کتاب الاشربة ، رقم : 5590 ، صحيح ابن حبان : 6719 .
”اور حضرت مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اللہ کی قسم ! انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زنا کاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح وشام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات ہی کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر ) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔ “

تعویذ گنڈوں کی مذمت

حدیث 37

«وعن عقبة بن عامر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من تعلق تميمة فقد أشرك»
مسند احمد : 156/4 ، رقم : 17422 ، مستدرك حاكم : 219/4۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ “

غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز کی مذمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾
(2-البقرة:270)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور تم کسی قسم کا خرچ کرو یا کوئی بھی نذر مانو تو بے شک اللہ اسے جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ “

حدیث 38

«وعن عائشة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه »
مسند احمد: 208/6 ۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ نذر مانے کہ وہ کسی معاملہ میں اللہ کی اطاعت کرے گا تو اُسے اپنی یہ نذر پوری کرنی چاہیے، اور جو شخص ایسی نذر مانے جو اللہ کی نافرمانی پر منتج ہو تو اس کو پورا کر کے اللہ کا نافرمان نہ بنے۔ “

غیر اللہ کی قسم کی مذمت کا بیان

حدیث 39

«وعن ابن عمر رضي الله عنها قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من حلف بغير الله فقد كفر وأشرك»
مسند احمد : 125/2 ، رقم : 6072 ، مستدرك حاكم 297/4، سنن ترمذی ، رقم: 1535، سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم: 2042.
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک یا کفر کیا۔ “

فرقہ بندی سے اجتناب کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
(3-آل عمران:85)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔“

حدیث 40

«عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حدو النعل بالنعل ، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان فى أمتي من يصنع ذلك ، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة ، كلهم فى النار إلا ملة واحدة ، :قالوا ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي»
سنن ترمذی، رقم : 2641 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1348 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آچکی ہے، ( یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے ) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہوگا، بنی اسرائیل تہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اللہ کے رسول ! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے