غیراللہ کے لیے ذبح: شرک یا عبادت؟
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا اور اسلام

بت پرستی اور اسلام

بت پرستی دراصل اولیاء پرستی ہی تھی، اور مشرکینِ مکہ کے بت بھی اولیاء اللہ کے ناموں اور صورتوں پر مشتمل تھے۔ اسلام نے اس بت پرستی کو رد کیا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خاتمہ کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ اسلام کی بنیاد بت پرستی کے خاتمے پر رکھی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے بعد کے کچھ مسلمانوں نے اس عمل کو عقیدت اور محبت کے نام پر دین کا حصہ بنا لیا۔ آج بھی بعض مسلمان مشرکین مکہ کے کچھ اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں۔

جانور ذبح کرنا

اولیاء اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہے۔ جس طرح مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کے نام پر جانور چھوڑتے تھے، آج کے بعض مسلمان بھی بزرگوں کے نام پر جانور چھوڑتے ہیں۔ ان جانوروں کو بہت حرمت والا سمجھا جاتا ہے۔ ان جانوروں کو کوئی کام کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ پہچان رکھتے ہیں کہ یہ فلاں مزار کا جانور ہے۔

فرق کہاں ہے؟

فرق صرف ناموں کا ہے۔ مشرکین مکہ اپنے جانوروں کو بتوں کے نام سے موسوم کرتے تھے، جیسے اساف، نائلہ، منات وغیرہ، اور انہیں بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا نام دیتے تھے۔ اسی طرح آج کے دور میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اونٹ فلاں درگاہ کے لیے مختص ہے، یا یہ بکرا فلاں نیاز کے لیے چھوڑا گیا ہے۔

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا شرک اور کفر ہے، اور ایسے جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں اور ان کا حق یہ ہے کہ انہیں صرف اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے۔
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ٭ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ}
(الانعام 6: 163,162)

وضاحت

ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کرواتے ہیں کہ ان کی تمام عبادات، خواہ وہ قلبی، قولی یا عملی ہوں، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ وہ جانور صرف اللہ کے لیے ذبح کرتے ہیں، نہ کہ مشرکین کی طرح بتوں کے لیے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین سے اختلاف کرنے کا حکم دیتے ہیں، جو غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں​۔

عبادات کا مقصد اور ان کی انواع

عبادات کی تمام اقسام، جیسے دعا، محبت، خوف، امید، توکل، ذبح اور نذر، خالص اللہ کے لیے ہی انجام دی جانی چاہئیں۔ ان میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ اللہ کا حق ہے کہ ہر عبادت صرف اسی کے لیے ہو، اور تاحیات اس کے ساتھ اخلاص سے قائم رہنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

حدیث نبوی

خلیفہ چہارم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ”
(صحیح مسلم: 1978)
"اللہ کی لعنت ہو اس پر جو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے جانور ذبح کرے۔”

غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا

غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا باعث لعنت عمل ہے اور یہ مشرکوں کا شعار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ}
(البقرہ 2: 173)
"اور وہ چیز جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔”

فقہ حنفی کا مؤقف

فقہ حنفی کے مطابق بھی اگر ذبح کے وقت اللہ کے ساتھ کسی اور کا نام پکارا جائے، جیسے "بِسْمِ اللّٰہِ وَفُلَانٍ” (اللہ اور فلاں کے نام پر)، تو جانور حرام ہو جاتا ہے​۔

شبہات کا ازالہ

بریلوی مکتب فکر کے مطابق اگر کسی جانور کو اولیاء کے نام سے موسوم کیا جائے اور ذبح کے وقت اللہ کا نام لے لیا جائے تو وہ حلال ہے۔ لیکن قرآن کی آیت
{وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ}
سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جانور حرام ہو گا۔ اس آیت کے تحت کسی بھی وقت غیر اللہ کا نام پکارا جائے، جانور حرام ہو جاتا ہے، اور وقت ذبح اس حرمت کی ایک صورت ہے۔

غیر اللہ کے نام پر جانور کی نسبت

غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنا یا ذبح کرنا کسی بھی وقت ہو، وہ عمل شرک اور حرام ہے۔ اگر کسی جانور کو بغرضِ تعظیم و تقرب کسی بزرگ یا ولی کے نام سے موسوم کیا جائے اور پھر اللہ کا نام لے کر ذبح کر دیا جائے، تب بھی وہ جانور حرام ہو گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو جانور غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جائے، خواہ زبان سے اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے، وہ جانور حرام ہی ہوگا۔” (اقتضاء الصراط المستقیم 64/2)

ذبح اور نیت کا اثر

علماء کے مطابق ذبح میں نیت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اگر جانور کسی ولی کے تقرب کے لیے نذر کیا جائے، تو اس کا ذبح اللہ کے نام پر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی نیت غیر اللہ کے تقرب کی تھی۔ لہذا، نیت کے اعتبار سے وہ جانور حرام ہو جاتا ہے۔

شرعی اصول

نذر و نیاز اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے کرنا جائز نہیں۔ یہ عمل شرک میں شمار ہوتا ہے، اور کوئی بھی عبادت، جیسے ذبح یا نذر، مخلوق کے لیے نہیں کی جا سکتی۔ قرآن و سنت اس بارے میں واضح ہیں کہ ہر عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔

ابن حجر رحمہ اللہ کا قول

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
{وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ}
کی تفسیر میں کہا کہ "اس آیت سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیے جائیں، اور ذبح کرنے والے بلند آواز سے اس ہستی کا نام لیں جس کے لیے جانور ذبح کیا جا رہا ہو”​۔

فقہ حنفی کا فتویٰ

فقہ حنفی کی معتبر کتب میں بھی یہی اصول بیان کیا گیا ہے:
"اگر کوئی امیر یا بڑا شخص آئے اور اس کی آمد کے موقع پر جانور ذبح کیا جائے، تو وہ جانور حرام ہو گا، کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے، چاہے بسم اللہ پڑھی گئی ہو یا نہ ہو۔” (الدر المختار 320/2)​۔

نذر و نیاز کی نسبت کا شرعی حکم

جب جانور یا کوئی اور چیز غیر اللہ کے لیے نذر کی جاتی ہے، تو یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے، اور ایسا عمل حرام ہے۔ اس لیے کہ نذر و نیاز اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شریعت کی رو سے ناجائز ہے۔

جانوروں کی نسبت اور قرآن

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر واضح کیا ہے کہ غیر اللہ کے نام سے منسوب کیے گئے جانور حرام ہیں۔ مثال کے طور پر:
{وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ}
(المائدہ 5: 3) "اور جو جانور آستانوں (مزاروں) پر ذبح کیا گیا ہو۔”
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جانور جو کسی قبر، مزار یا آستانے پر ذبح کیا جائے، وہ حرام ہے، چاہے اس پر اللہ کا نام پکارا جائے یا نہ پکارا جائے۔

مشرکانہ عمل اور اس کا رد

کفار مکہ اپنے معبودوں کے لیے جانوروں کے حصے مقرر کرتے تھے۔ قرآن نے ان کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا:
{وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیبًا مِّمَّا رَزَقْنَاہُمْ تَاللّٰہِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ}
(النحل 16: 56) "اور وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق سے ان (معبودوں) کا حصہ مقرر کرتے ہیں، جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ اللہ کی قسم! تم سے تمہارے جھوٹوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔”

بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام

اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے بارے میں فرمایا جنہیں کفار اپنے معبودوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے:
{مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیرَۃٍ وَّلَا سَائِبَۃٍ وَّلَا وَصِیلَۃٍ وَّلَا حَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ}
(المائدہ 5: 103) "اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حام۔ بلکہ یہ کفار اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔”
اس آیت میں ان جانوروں کی شرعی حیثیت کی نفی کی گئی ہے جو کفار غیراللہ کے نام پر چھوڑتے تھے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ غیراللہ کے نام پر جانور چھوڑنا یا ذبح کرنا کفریہ عمل ہے۔

بحیرہ وغیرہ کی حلت و حرمت

بحیرہ وغیرہ کے متعلق بعض لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں کہ یہ جانور قرآن نے حلال قرار دیے ہیں۔ جبکہ قرآن نے ان جانوروں کے غیراللہ کے نام پر ہونے کی مذمت کی ہے اور انہیں حرام قرار دیا ہے، چاہے ان پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے یا نہیں۔

خلاصہ

◄ غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے۔
◄ مشرکانہ اعمال، جیسے بزرگوں کے نام پر جانور چھوڑنا، شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔
◄ قرآن واضح طور پر ایسے اعمال کی مذمت کرتا ہے اور انہیں باطل قرار دیتا ہے۔
◄ ہر عبادت، چاہے وہ ذبح ہو یا نذر، صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔

اللہ ہمیں ان اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو شرک کی طرف لے جائیں۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!