تقلید کی وجہ سے مخالفتِ سنت کی دو مثالیں
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

تقلید کیا ہے؟

امام ابن عبد البر کی تعریف

امام اندلس، حافظ ابن عبد البر (463-368ھ) تقلید کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:

"تقلید یہ ہے کہ آپ کسی کی بات کو تسلیم کر لیں، جب کہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو، نہ اس کا مطلب اور نہ ہی آپ کو اس بات کی حقانیت یا غلطی معلوم ہو، لیکن پھر بھی آپ اسے مانتے رہیں۔ یہ شریعت میں حرام ہے۔”
(جامع بیان العلم وفضلہ، جلد 2، صفحہ 787)

علامہ ابوعبداللہ مصری مالکی کی تعریف

ابوعبداللہ مصری مالکی تقلید کی شرعی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"تقلید کا مطلب یہ ہے کہ بغیر دلیل کے کسی قول کی پیروی کی جائے، اور یہ شریعت میں ممنوع ہے۔”
(جامع بیان العلم وفضلہ، جلد 2، صفحہ 992)

تقلید کا شرعی مقام

اوپر دی گئی تعریفات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تقلید، اسلام کی روح کے خلاف اور ممنوع ہے۔ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تقلید ایک مذموم عمل ہے۔ تقلید کی مذمت اور اس کے منفی اثرات قرآن و سنت میں ثابت ہیں۔

تقلید اور جہالت

حافظ ابن عبد البر (463-368ھ) مقلدین کے بارے میں فرماتے ہیں:

"مقلد جاہل ہوتا ہے اور اہل علم میں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔”
(جامع بیان العلم وفضلہ، جلد 2، صفحہ 992)

علامہ ابن قیم کی رائے

علامہ ابن قیم (751-691ھ) فرماتے ہیں:

"اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید علم نہیں ہے، بلکہ جہالت ہے۔”
(إعلام الموقّعین عن ربّ العالمین، جلد 2، صفحہ 169)

تقلید کی قباحتیں

تقلید ایک ایسی منفی روایت ہے جس نے ہمیشہ علمی ترقی اور دین میں اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اسی تقلید کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کی گئی، ان کی نبوت کا انکار کیا گیا اور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔ تقلید نے امت کو علم و عقل سے دور کر دیا اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کر دیا۔

علامہ ابن قیم کی رائے

علامہ ابن قیم تقلید کی برائیوں کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

"متعصب لوگ سنت کو صرف اپنے نظریات کے مطابق مانتے ہیں اور جو ان کے اقوال کے مطابق ہو اسے تسلیم کرتے ہیں، اور جو خلاف ہو اسے رد کرتے ہیں۔ اس روش نے دین میں فتنہ و فساد پیدا کیا ہے۔”
(إعلام الموقّعین، جلد 1، صفحہ 60)

تقلید اور فکری جمود

تقلید ایک فکری جمود پیدا کرتی ہے، جس کے باعث لوگ دلائل اور صحیح حدیث کو نظرانداز کر کے اپنے امام کے اقوال کو ہی مانتے ہیں۔

شیخ عزّالدین بن عبدالسلام کی رائے

شیخ عزّالدین بن عبدالسلام (660-577ھ) تقلید کے مقلدین کے بارے میں فرماتے ہیں:

"اکثر مقلدین جب اپنے امام کے قول کی کمزوری پر واقف ہو جاتے ہیں، تب بھی وہ اسی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے امام کی دلیل کو، خواہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، صحیح سمجھتے ہیں۔”
(قواعد الأحکام في مصالح الأنام، جلد 2، صفحہ 135)

شاہ ولی اللہ دہلوی کی تنقید

شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی (1176-1114ھ) تقلید کے متعلق سخت تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اگر ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کی حدیث پہنچ جائے، جس کی اطاعت اللہ نے ہم پر فرض کی ہے، اور وہ حدیث امام کے مذہب کے خلاف ہو، تو ہم نبی کی حدیث کو چھوڑ کر امام کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہم سے بڑا ظالم کوئی ہو گا؟”
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ، جلد 1، صفحہ 156)

تقلید میں حدیث کی مخالفت کی مثالیں

سواری پر وتر کی ادائیگی 

نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے سفر میں اپنی سواری پر وتر ادا کیے۔ اس سنت کی تصدیق متعدد احادیث سے ہوتی ہے۔

عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:

"نبی اکرم ﷺ سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے اور وتر بھی اسی پر ادا کرتے تھے۔”
(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث: 1000؛ صحیح مسلم، جلد 1، حدیث: 700)

سعید بن یسارؓ نے بھی یہ روایت بیان کی کہ انہوں نے سیدنا ابن عمرؓ کو سواری پر وتر پڑھتے دیکھا اور آپ ﷺ کی سنت کا حوالہ دیا۔
(صحیح بخاری، جلد 1، حدیث: 999)

احناف کا فتویٰ

احناف کا فتویٰ اس صحیح اور ثابت شدہ سنت کے خلاف ہے:

"سواری پر وتر ادا کرنا جائز نہیں۔”
(الفتاوی الہندیّہ، جلد 1، صفحہ 111)

حنفی تاویلات اور نقد

سواری پر وتر کے خلاف حنفی علماء نے عجیب تاویلیں پیش کیں۔ انور شاہ کشمیری نے یہ دعویٰ کیا کہ ابن عمرؓ نے وتر اور تہجد کو ایک سمجھا، حالانکہ حدیث میں دونوں کو واضح طور پر الگ ذکر کیا گیا ہے۔
(فیض الباری، جلد 3، صفحہ 194)

تقلید اور اتباع کا فرق

علامہ ابن قیمؒ نے تقلید کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت کی مخالفت کرکے محض فقہ کی پیروی کرنا جائز نہیں۔

"سنت کی پیروی کرنے کے بجائے، فقہاء نے اپنی مرضی کی تاویلات کیں، اور حدیث کی واضح دلالت کو مسترد کیا۔”
(اعلام الموقعين، جلد 1، صفحہ 60)

خلاصہ

سواری پر وتر کی ادائیگی نہ صرف نبی اکرم ﷺ کا عمل تھا بلکہ صحابہ کرامؓ اور تابعین نے بھی اس سنت پر عمل کیا۔ حنفی مکتبہ فکر کی جانب سے اس سنت کے خلاف جو تاویلات پیش کی گئیں، وہ محدثین کے فہم اور سنت نبویؐ کی روشنی میں درست نہیں۔

حدیثِ رسول ﷺ: ماں کے ساتھ بچے کی ذبح 

سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"ذَکَاۃُ الْجَنِینِ ذَکَاۃُ أُمِّہٖ”
(مسند احمد، جلد 3، صفحہ 39)

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ماں کو ذبح کیا جائے تو اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے اور اس کا کھانا حلال ہے۔

محدثین کا فہم

اس حدیث کو محدثین نے صحیح تسلیم کیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث صحابہ کرامؓ اور تابعین کے فہم کے مطابق ہے اور اسے کسی بھی طرح منسوخ یا غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(التلخیص الحبیر، جلد 4، صفحہ 157)

محدثین کے نزدیک اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے اور اس کا کھانا حلال ہوتا ہے۔

امام ابو حنیفہؒ کا اختلاف

امام ابو حنیفہؒ اور ان کے مقلدین کے نزدیک ماں کے ذبح ہونے سے پیٹ کا بچہ حلال نہیں ہوتا، اور اسے الگ سے ذبح کرنا ضروری ہے۔
(المبسوط للسرخسي، جلد 12، صفحہ 6)

یہ موقف محدثین کے اجماعی فہم کے برخلاف ہے اور حدیث نبویؐ کی صریح مخالفت ہے۔

اجماعِ امت

اس مسئلے پر امت کا اجماع ہے کہ ماں کے ساتھ پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے۔ امام ابن منذرؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے، سوائے امام ابو حنیفہؒ کے۔
(نصب الرایۃ، جلد 4، صفحہ 192)

امام ابن عبد البرؒ اور دیگر محدثین نے بھی اس مسئلے پر امام ابو حنیفہؒ کے موقف کو بے دلیل قرار دیا ہے۔

تقلید کی خرابی

علامہ ابن قیمؒ نے تقلید پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت میں حدیث رسول ﷺ کو محض فقہی اصولوں پر قربان کرنا جائز نہیں۔

"اگر رسول اللہ ﷺ نے ایک بات کی وضاحت فرمائی ہے تو اسے اصولوں کے برخلاف کہہ کر رد کرنا درست نہیں۔”
(اعلام الموقعین، جلد 2، صفحہ 334)

یہی تقلید کی خرابی ہے کہ واضح احادیث کو بھی فقہی مسائل کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

خلاصہ

جانور کے پیٹ کے بچے کا مسئلہ ایک اجماعی مسئلہ ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے واضح کیا۔ محدثین کے فہم کے برخلاف فقہی اختلافات تقلید کی ایک اور مثال ہیں جو کہ حدیث کی صریح مخالفت پر مبنی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!