إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد!
● نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
(3-آل عمران:110)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تم بہترین امت ہو جو لوگوں ( کی اصلاح) کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا۔ ان میں بعض ایمان والے بھی ہیں مگر ان کے اکثر نا فرمان ہیں۔“
حدیث 1 :
«عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من رأى منكم منكرا فغيره بيده، فقد بري، ومن لم يستطع أن يغيره بيده فغيره بلسانه ، فقد بري، ومن لم يستطع أن يغيره بلسانه فغيره بقلبه ، فقد برئ، وذلك أضعف الإيمان»
سنن نسائى، كتاب الإيمان وشرائعه ، رقم : 5009 ، صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 177 .
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: تم میں سے جس نے برائی کو دیکھا اور اپنے ہاتھ سے روک دیا تو وہ ( گناہ سے) بری ہو گیا، اور جس میں ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں لیکن اس نے زبان سے روک دیا تو وہ بھی بری ہو گیا، اور جس میں زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہیں لیکن دل سے برا جانا وہ بھی بری ہو گیا اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ “
● چلتے چلتے راستے میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
حدیث 2 :
«وعنه رضی اللہ عنہ ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والجلوس على الطرقات. فقالوا: ما لنا بة ، إنما هي مجالسنانتحدث فيها ، قال: فإذا أبيتم إلا المجالس فأعطوا الطريق حقها . قالوا: وما حق الطريق قال: غض البصر ، وكف الأذى ، ورد السلام، وأمر بالمعروف ونهى عن المنكر»
صحیح بخاری، کتاب المظالم ، رقم : 2465.
” اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا کسی کو ایذاء نہ پہنچانا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا، اور بری باتوں سے روکنا۔“
● داعی لوگوں کو تعلیم دے کہ سنی ہوئی بات کو آگے پہنچائیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
(12-يوسف:108)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (اے نبی!) کہہ دیجیے: یہی میری راہ ہے، میں (تمھیں ) اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور وہ لوگ جنھوں نے میری اتباع کی بصیرت پر ہیں۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“
حدیث 3 :
«وعن عبد الرحمن بن أبى بكرة، عن أبيه ، ذكر النبى صلى الله عليه وسلم قعد على بعيره ، وأمسك إنسان بخطامه أو بز مامه قال: أى يوم هذا ، فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه سوى اسمه قال: أليس يوم النحر قلنا بلى . قال: ف أى شهر هذا فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه فقال: أليس بذي الحجة قلنا: بلى! قال: فإن دمانكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا، فى شهركم هذا، فى بلدكم هذا ليبلغ الشاهد الغائب ، فإن الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه»
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم : 67 .
” اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ (ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج یہ کونسا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتی کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک (اس کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ (ہم اس پر بھی) خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کو ئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے ، جو اس سے زیادہ (حدیث کا ) یا درکھنے والا ہو۔ “
● ظالم کو ظلم سے روکنا ضروری ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
(51-الذاريات:55)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور نصیحت کر ، کیونکہ یقیناً نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔“
حدیث 4 :
«وعن جابر قال: اقتتل غلامان، غلام من المهاجرين وغلام من الأنصار ، فنادى المهاجر أو المهاجرون: يا للمهاجرين! ونادى الأنصاري: يا للانصار! فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما هذا دعوى أهل الجاهلية؟ قالوا: لا يا رسول الله! إلا أن غلامين اقتتلا فكسع احدهما الآخر ، فقال: لا بأس ، ولينصر الرجل أخاه ظالما أو مظلوما ، إن كان ظالما فلينهه ، فإنه له نصر ، وإن كان مظلوما فلينصره»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6582.
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو غلام آپس میں لڑ پڑے، ایک غلام مہاجروں اور دوسرا انصار کا تھا، مہاجر غلام یا مہاجروں نے آواز بلند کی، اے مہاجرو! مدد کرو اور انصاری نے پکارا، اے انصار یو! مدد کرو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر نکلے اور ارشاد فرمایا: یہ جاہلانہ پکار کیسی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کچھ نہیں۔ اے اللہ کے رسول! صرف اتنی بات ہے دو غلام لڑ پڑے ( کیونکہ ) ایک نے دوسرے کی سرین پر لات ماری، آپ نے ارشاد فرمایا: کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے، انسان کو اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہیے، ظالم ہو یا مظلوم، اگر وہ ظلم کر رہا ہے تو اسے روکے، کیونکہ یہی اس کی نصرت ہے، اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے۔“
● جس مسلمان کو دین کا جتنا بھی مسئلہ معلوم ہوا سے آگے پہنچائے
حدیث 5 :
«وعن عبد الله بن عمرو ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بلغوا عني ولو آية ، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ، ومن كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار»
صحیح بخارى، كتاب أحاديث الانبياء، رقم : 3461.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو، اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ “
● علماء پر عوام الناس کو نیکی کا حکم دینا فرض ہے
قَالَ الله تَعَالَى: ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
(3-آل عمران:104)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم دے، اور برے کاموں سے روکے۔ اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
حدیث 6 :
«وعن أبى سعيد الخدري ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام خطيبا فكان فيما قال: ألا لا يمنعن رجلا، هيبة الناس، أن يقول بحق ، إذا علمه قال: فبكى أبو سعيد، وقال: قد والله ، رأينا أشياء فهبنا»
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، رقم : 4007 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 168 .
”اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: خبردار! کسی آدمی کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے جب اسے دین کی بات کا علم ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کر کے رونے لگے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! ہم بہت سی غلط باتیں دیکھتے رہتے ہیں اور (منع کرنے سے ) ڈرتے رہتے ہیں۔ “
● حالات دیکھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾
(2-البقرة:286)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔“
حدیث 7 :
«وعن حذيفة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا ينبغى للمؤمن أن يذل نفسه ، قالوا: وكيف يذل نفسه؟ قال: يتعرض من البلاء لما لا يطيقه»
سنن ابن ماجه ، كتاب الفتن، رقم : 4016 ، سلسلة الصحيحة، رقم :613۔
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو رسوا کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مومن اپنے آپ کو کیسے رسوا کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی ایسی مصیبت میں پڑے جسے برداشت کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ “
● امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل گناہوں کا کفارہ ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾
(11-هود:114)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔“
حدیث 8 :
«وعن أبى ذر رضى الله عنه قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: اتق الله حيثما كنت ، وأتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن»
سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، رقم : 1987 ، المشكاة، رقم : 5083۔ محدث البانی نے اسے ”حسن“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو جہاں بھی رہے اللہ سے ڈر، برائی کے پیچھے نیکی کو لگا، یہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ “
● امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اجر و ثواب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
(9-التوبة:112)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ (مومن) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور (اے نبی !) مومنوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔“
حدیث 9 :
«وعن أبى ذر: أن ناسا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم يا رسول الله! ذهب أهل الدثور بالأجور ، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون به ۚ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة وأمر بالمعروف صدقة، ونهى عن منكر صدقة. قالوا يا رسول الله آياتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: أرأيتم لو وضعها فى حرام ، أكان عليه فيها وزر؟ كذلك إذا وضعها فى الحلال كان له أجر»
صحیح مسلم، کتاب الزكاة، رقم : 2329.
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! سرمایہ دار اجر و ثواب لے گئے، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور ضرورت سے زائد مالوں کو خرچ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے صدقہ کرنے کی صورت نہیں پیدا کی؟ ایک دفعہ سبحان الله کہنا صدقہ ہے، اور ایک دفعہ الله اكبر کہنا صدقہ ہے، ایک دفعہ الحمد لله کہنا صدقہ ہے، اور ایک دفعہ لا اله الا الله کہنا صدقہ ہے، نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اور بیوی سے تعلقات قائم کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا جب ہم میں سے کوئی اپنے نفسانی خواہش (جنسی ضرورت) پوری کرتا ہے، اس میں بھی اسے اجر ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بتاؤ، اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا ہے، تو کیا اسے اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح جب وہ اسے جائز محل پر رکھتا ہے تو اسے اجر بھی ملتا ہے۔“
حدیث 10 :
«وعن أبى موسى الأشعري الله قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : والذي نفس محمد بيده ، إن المعروف والمنكر خليقتان ، تنصبان للناس يوم القيامة ، فأما المعروف فيبشر أصحابه ويوعدهم الخير ، وأما المنكر ، فيقول: إليكم إليكم ، وما يستطيعون له إلا لزوما»
مسند أحمد : 391/4 مجمع الزوائد الجزء السابع، رقم : 12111۔ علامہ ہیثمی اور شیخ حمزہ نے زین اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے قیامت کے روز نیکی اور برائی (اپنے جسم کے ساتھ ) پیدا کیے جائیں گے اور لوگوں کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ نیکی اپنے اصحاب کو خوشخبری دے گی اور بھلائی کا وعدہ کرے گی جبکہ برائی اپنے اصحاب سے کہے گی میں ابھی تمہاری خبر لیتی ہوں، میں ابھی تمہاری خبر لیتی ہوں اور وہ اس سے (بھاگنے کی خواہش کے باوجود ) بھاگ نہیں سکیں گے اور وہ ان پر مسلط ہو کر رہے گی۔“
حدیث 11 :
«وعن النعمان بن بشير رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: مثل القائم على حدود الله والواقع فيها كمثل قوم استهموا على سفينة ، فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها، فكان الذين فى أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم فقالوا: لو أنا خرقنا فى نصيبنا خرقا، ولم نؤذ من فوقنا . فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا ، وإن أخذوا على أيديهم نجوا ونجوا جميعا»
صحیح بخاری، کتاب الشركة، رقم : 2493 .
” اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ ملا اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں ( دریا سے ) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں۔ تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔“
● دعوت کے راستے میں شہید ہونے والے کا درجہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
(103-العصر:)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”زمانے کی قسم ! کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی ۔“
حدیث 12 :
«وعن جابر رضی اللہ عنہ عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سيد الشهداء حمزة بن عبد المطلب ، ورجل قام إلى إمام جائر فأمره ونهاه فقتله»
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 374.
” اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سید الشہداء ہیں اور وہ شخص بھی جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اور اسے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اور حکمران نے اسے قتل کر دیا۔“
● داعی کے لیے کسی کو نیکی پر لگا دینا سب سے بڑی نعمت ہے
حدیث 13 :
«وعن سهل بن سعد رضى الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لأعطين الرأية غدا رجلا يفتح الله على يديه ، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها ، فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو أن يعطاها ، فقال: أين على بن أبى طالب . فقالوا: يشتكي عينيه يا رسول الله قال: فأرسلوا إليه فأتوني به ، فلما جاء بصق فى عينيه ودعا له ، فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع ، فأعطاه الرأية، فقال علي: يا رسول الله أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: انفد على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه ، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من أن يكون لك حمر النعم»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم : 3701 .
”اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا : کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی علم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئے علم کسے ملتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب حضرات (جو سرکردہ تھے ) حاضر ہوئے۔ سب کو امید تھی کہ علم انہیں ہی ملے گا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوا لو۔ جب وہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اس سے انہیں ایسی شفا حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھا ہی نہیں۔ چنانچہ آپ نے علم انہیں کو عنایت فرمایا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں ( یعنی مسلمان بن جائیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابھی یوں ہی چلتے رہو۔ جب ان کے میدان میں اتر و تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حق واجب ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں ( کی دولت ) سے بہتر ہے۔“
● دعوت کا کام کرنے والے مبارکباد کے حق دار
حدیث 14 :
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن من الناس مفاتيح للخير ، مغاليق للشر ، وإن من الناس مفاتيح للشر ، مغاليق للخير ، فطوبى لمن جعل الله مفاتيح الخير على يديه، وويل لمن جعل الله مفاتيح الشر على يديه»
سنن ابن ماجه المقدمة، رقم : 237 ، سلسلة الصحيحة رقم : 1332 .
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے بعض لوگ نیکی کی چابیاں ہیں اور برائی کو روکنے والے ہیں اور بعض برائی کی چابیاں ہیں اور نیکی کو روکنے والے ہیں۔ مبارک ہو اس آدمی کو جس کے ہاتھ سے اللہ نے نیکی کے دروازے کھولے اور ہلاکت ہو اس شخص کے لیے جس کے ہاتھ سے شر کے دروازے کھولے گئے۔ “
● دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کا مقام و مرتبہ
حدیث 15 :
«وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : المؤمن يالف ويولف ، ولا خير فيمن لا يالف ولا يولف، وخير الناس أنفعهم للناس»
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 426 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن محبت کرتا بھی ہے اور کیا بھی جاتا ہے، اور اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو محبت کرے نہ محبت کیا جائے ، اور لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے ۔ “
● داعی کو نیکی کا کام کرنے والے کے برابر اجر
حدیث 16 :
« وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه ، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه ، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا»
صحیح مسلم، کتاب العلم، رقم : 6804.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لیے اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ہوگا ، یہ چیز ان کے اجر میں کچھ کمی نہیں کرے گا اور جو ضلالت و گمراہی کی طرف بلاتا ہے، اس پر اتنا گناہ ہو گا، جس قدر گناہ اس کی پیروی کرنے والوں پر ہوگا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “
● دعوت الی اللہ کا کام نہ کرنے پر عذاب الہی
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾
(5-المائدة:79، 78)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داود اور عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے کام سے منع نہیں کرتے تھے کیونکہ انھوں نے وہ خود کیا ہوتا تھا، بہت برا تھا جو وہ کرتے تھے۔“
حدیث 17 :
«وعن جرير رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من الله رجل يكون فى قوم يعمل فيهم بالمعاصي يقدرون على أن يغيروا عليه فلا يغيروا إلا أصابهم الله بعذاب من قبل أن يموتوا»
سنن ابوداؤد ، کتاب الملاحم، رقم : 4339 ۔ محدث البانی نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
”اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اگر ایک آدمی کسی قوم میں برے کام کرتا ہو اور دوسرے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن نہ روکیں تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے پہلے عذاب نازل فرمائے گا۔ “
حدیث 18 :
«وعن عبيد الله بن جرير عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من قوم يعمل فيهم بالمعاصي – هم أعز منهم وأمنع – لا يغيرون ، إلا عمهم الله بعقاب»
سنن ابن ماجه ، ابواب الفتن، رقم : 4009۔ محدث البانی نے اسے” حسن“ کہا ہے۔
”اور حضرت عبید اللہ بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں گناہ کیے جاتے ہوں اور گناہ کرنے والے نیک لوگوں سے زیادہ معزز ہوں کہ ان کی عزت کی وجہ سے نیک لوگ ان کو روک نہ سکیں تو اللہ ان سب پر عذاب عام نازل فرما دیتا ہے۔“
● ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے تو رحمت الہی سے محرومی
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿١١٦﴾ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ﴿١١٧﴾
(11-هود:116، 117)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” پھر ان امتوں میں، جو تم سے پہلے گزریں، ایسے عقل و بصیرت والے کیوں نہ ہوئے جو زمین میں (لوگوں کو ) فساد (پھیلانے) سے روکتے مگر تھوڑے ہی ان میں سے جنھیں ہم نے نجات دی اور جن لوگوں نے ظلم کیا وہ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں وہ (ظالم) آسودگی دیے گئے تھے، اور وہ مجرم تھے۔ اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلم کے ساتھ ہلاک کرے جبکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔“
حدیث 19 :
«وعن جابر قال: لما رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مهاجرة البحر، قال: ألا تحدثوني بأعاجيب ما رأيتم بأرض الحبشة؟ قال فتية منهم : بلى يا رسول الله بينا نحن جلوس مرت بنا عجوز من عجائز رها بينهم تحمل على رأسها قلة من ماء فمرت بفتى منهم ، فجعل إحدى يديه بين كتفيها ، ثم دفعها ، فخرت على ركبتيها فانكسرت قلتها ، فلما ارتفعت التفتت إليه فقالت: سوف تعلم يا غدر! إذا وضع الله الكرسي، وجمع الأولين والآخرين، وتكلمت الأيدي والأرجل بما كانوا يكسبون، فسوف تعلم كيف أمرى وأمرك ، عنده غدا، قال: يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقت ، صدقت ، كيف يقدس الله أمة لا يؤخذ لضعيفهم من شديدهم؟»
سنن ابن ماجه ابواب الفتن رقم : 4010 ، مختصر العلو : 46/59۔ محدث البانی نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب سمندر کے رستہ ہجرت کرنے والے (یعنی مهاجرین حبشہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز ان سے ) ارشاد فرمایا: تم نے سرزمین حبشہ میں جو عجیب وغریب باتیں دیکھی ہیں وہ مجھے بتاؤ۔ مہاجرین میں سے ایک نوجوان نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ! کیوں نہیں (میں ایک واقعہ سناتا ہوں) ایک روز ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے سامنے سے ایک بڑھیا اپنے سر پر پانی کا گھڑا اٹھائے ہوئے گزری، اتنے میں ایک حبشی نوجوان آیا، اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھیا کے کندھوں پر رکھے اور اسے دھکا دیا جس سے وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی اور اس کا گھڑا ٹوٹ گیا، جب اٹھی تو نوجوان کی طرف منہ کر کے کہنے لگی ، اے بد قماش ! تمہیں (اس حرکت کا انجام) جلد ہی معلوم ہو جائے گا، جب اللہ تعالیٰ کرسی عدالت پر جلوہ افروز ہوں گے، اگلے اور پچھلے سارے لوگ جمع ہوں گے اور لوگوں کے اعمال کی گواہی ان کے ہاتھ اور پاؤں دیں گے، اس روز میرے اور تمہارے معاملے کا فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑھیا نے سچ کہا، بالکل سچ کہا، اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے پاک کریں گے جس میں کمزوروں کا بدلہ طاقتوروں سے نہ لیا جائے؟“
● دعوت الی اللہ کا کام نہ کریں تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں
حدیث 20 :
«((( وعن حذيفة بن اليمان عن النبى صلى الله عليه وسلم ، قال: والذي نفسى بيده لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر ، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه ، ثم تدعونه فلا يستجاب لكم»
سنن ترمذی، ابواب الفتن، رقم : 2169 سلسلة الصحيحة، رقم : 2868.
”اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر عذاب نازل فرمادے پھر تم اس سے دعا کرو گے تو وہ تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں فرمائے گا۔ “
● امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنا قیامت کی نشانی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾
(5-المائدة:105)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کی فکر لازم ہے، جو شخص گمراہ ہو، وہ تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتا جبکہ تم خود ہدایت پر ہو۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔“
حدیث 21 :
«وعن عبد الله بن عمرو ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كيف بكم وبزمان يوشك أن يأتي، يغربل الناس فيه غربلة، وتبقى حثالة من الناس، قد مرجت عهودهم وأماناتهم، فاختلفوا ، وكانوا هكذا! – وشبك بين أصابعه – قالوا: كيف بنا يا رسول الله إذا كان ذلك؟ قال: تأخذون بما تعرفون، وتدعون ما تنكرون، وتقبلون على خاصتكم ، وتذرون أمر عوامكم»
سنن ابن ماجه، ابواب الفتن، رقم : 3957 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 205.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہت جلد ایسا وقت آئے گا کہ نیک لوگ اٹھا لیے جائیں گے اور صرف برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے، وعدہ اور امانت خلط ملط ہو جائیں گے (یعنی ان کی پروا نہیں کی جائے گی ) لوگ بالکل بگڑ جائیں گے، اچھے اور برے لوگ آپس میں یوں گھل مل جائیں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : اگر ایسا وقت ہم پر آجائے تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے نیکی سمجھو اس پر عمل کرنا جسے برا سمجھو اسے چھوڑ دینا، اور اس وقت اپنے قابل اعتماد لوگوں کے پاس چلے آنا اور دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔“
● کسی برے کام کو روکنے کی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جاننا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ﴾
(50-ق:45)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہم اسے زیادہ جاننے والے ہیں جو یہ کہتے ہیں اور تو ان پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں، سو قرآن کے ساتھ اس شخص کو نصیحت کر جو میرے عذاب کے وعدے سے ڈرتا ہے۔“
حدیث 22 :
«وعن أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: يستعمل عليكم أمراء ، فتعرفون وتنكرون، فمن كره فقد ري، ومن انكر فقد سلم ، ولكن من رضي وتابع»
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم : 4801 .
”اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایسے حکمران مقرر ہوں گے جن کے بعض کام تمہیں اچھے لگیں گے بعض برے۔ جس نے ان کے برے کاموں کو ( دل سے ) برا جانا وہ گناہوں سے بری الذمہ ہو گیا اور جس نے ( زبان سے ) برا کہا وہ بھی (اللہ کی پکڑ سے) بچ گیا لیکن جو ان کی برائی پر خوش ہوا اور ان کے پیچھے لگ گیا ( وہ ہلاک ہوا)۔ “
● امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم تا قیامت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
(39-الزمر:9)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ( کیا یہ بہتر ہے ) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہہ دیجیے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔“
حدیث 23 :
«وعن ابن عباس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تسمعون ويسمع منكم ويسمع ممن سمع منكم»
سنن ابی داؤد، کتاب العلم، رقم : 3659 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1784 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ مجھ سے علم سنتے ہو اور آگے تم سے لوگ سنیں گے اور جو تم سے سنیں گے ان سے آگے سنا جائے گا (اور یہ سب اس کے اجر وثواب میں شریک ہوں گے) ۔“
● امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حکمت سے ہو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
(16-النحل:125)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” (اے نبی ! ) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجیے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔ بے شک آپ کا رب ہی اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکا اور وہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔“
حدیث 24 :
«وعن عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته فى الحق ، ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها»
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، رقم : 1896 .
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو چیزوں کے علاوہ کسی پر رشک جائز نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے بہت مال دیا ہے اور اسے حق کی راہ میں بے دریغ خرچ کرنے کی توفیق دی ہے، دوسرا وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے ، حکمت ( دین کا صحیح فہم) دیا اور وہ اس کے مطابق (اپنے اور دوسروں کے ) فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“
● داعی اچھے اخلاق کا مالک ہو
حدیث 25 :
«وعن أبى الدرداء رضى الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: ما من شيء يوضع فى الميزان أثقل من حسن الخلق ، وإن صاحب حسن الخلق ليبلغ به درجة صاحب الصوم والصلاة»
سنن ترمذی، ابواب البر والصلة، رقم : 2003۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ( قیامت کے روز ) میزان میں اچھے اخلاق سے بڑھ کر وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی، بے شک اچھے اخلاق والا (اپنی اس خوبی کی وجہ سے) کثرت سے روزے رکھنے والے اور کثرت سے نوافل ادا کرنے والے کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔ “
● نرمی گفتگو کو مزین اور ترشی معیوب بنا دیتی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ﴾
(3-آل عمران:159)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پس (اے نبی!) آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہو گئے ۔ اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ، چنانچہ آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے بخشش مانگیں اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسا کریں، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
حدیث 26 :
«وعن عائشة رضي الله عنها و عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الرفق لا يكون فى شيء إلا زانه، ولا ينزع من شيء إلا شانه»
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6602.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کام میں نرمی برتی جائے نرمی اس میں زینت پیدا کر دیتی ہے، اور جس کام سے نرمی نکال دی جائے تو وہ اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ “
● داعی لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
(2-البقرة:185)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمھارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی اور تا کہ تم شکر کرو۔“
حدیث 27 :
« وعن أبى موسى رضی اللہ عنہ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث احدا من أصحابه فى بعض أمره، قال: بشروا ولا تنفروا ، ويسروا ولا تعسروا»
صحیح مسلم، کتاب الجهاد، رقم : 4525.
”اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے کسی کو جب (لوگوں کی طرف) کسی کام سے بھیجتے تو انہیں نصیحت فرماتے ، لوگوں کو اچھی خبر دینا، نفرت نہ دلانا، آسانی پیدا کرنا سختی نہ کرنا۔ “
● دعوت کے میدان میں تکلیف دہ باتوں پر صبر کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ﴾
(2-البقرة:55)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم ہرگز تیرا یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں، تو تمھیں کڑک نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے۔“
حدیث 28 :
«وعن يحيى بن وثاب، عن شيخ من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أراه ، عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم ، قال: المسلم إذا كان يخالط الناس ويصبر على أذاهم خير من المسلم الذى لا يخالط الناس ولا يصبر على أذاهم»
سنن ترمذی، ابواب صفة القيامة، رقم : 2507 ، سنن ابن ماجه رقم : 4032۔ محدث البانی نے اسے” صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت یحیی بن وثاب رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ شیخ نے یوں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان دوسروں میں گھل مل کر رہے اور پھر لوگوں کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو دوسروں میں گھل مل کر نہ رہے اور نہ ہی ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرے۔“
● داعی الی اللہ شہرت اور دکھاوے کی نیت سے کام نہ کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿٧﴾
(107-الماعون:4،5،6،7)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پس ان نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔ وہ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ اور عام برتنے کی چیزیں روکتے ہیں۔“
حدیث 29 :
«وعن سليمان بن يسار قال: تفرق الناس عن أبى هريرة: فقال له ناتل أهل الشام: أيها الشيخ حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال: نعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن اول الناس يقضى يوم القيامة عليه ، رجل استشهد ، فأتي به فعرفه نعمه فعرفها ، قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت، قال: كذبت ، ولكثك قاتلت لان يقال جريء ، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار ، ورجل تعلم العلم وعلمه وقرا القرآن، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها . قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته وقرأت فيك القرآن . قال: كذبت ولكثك تعلمت العلم ليقال عالم ، وقرأت القرآن ليقال هو قاري ، فقد قيل، ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار ، ورجل وسع الله عليه واعطاه من أصناف المال كله، فأتي به فعرفه نعمه فعرفها ، قال : فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب أن ينفق فيها إلا أنفقت فيها لك ، قال: كذبت، ولكثك فعلت ليقال هو جواد ، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه، ثم ألقي فى النار »
صحیح مسلم، کتاب السنة، رقم : 4923.
”اور سلیمان بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، کہ لوگ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بکھر گئے تو ایک شامی سر برآ وردہ یا ناتل نامی شخص نے ان سے کہا، اے شیخ! ہمیں وہ حدیث سنائیے ، جو آپ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، انہوں نے کہا، ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: سب سے پہلے قیامت کے دن جس کے خلاف فیصلہ ہو گا، وہ ایک شہید ہونے والا آدمی ہے، اسے لایا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اسے بتائے گا اور وہ ان کا اقرار کرے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا، تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا ( کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا ہے ) وہ کہے گا، میں نے تیری خاطر جہاد کیا، حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا ، اللہ فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے تو صرف اس لیے جہاد میں حصہ لیا، تا کہ تیری جرات کے چرچے ہوں، تو یہ چرچے ہو گئے، پھر اس کے بارے میں حکم ہوگا اور اسے اوندھے منہ گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے اور ایک آدمی نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن کی قرات کرتا رہا، اسے بھی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمت کی شناخت کروائے گا اور وہ ان کی شناخت کر لے گا، اللہ اس سے پوچھے گا، تو نے ان سے کیا کام لیا؟ (ان کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا) وہ کہے گا، میں نے علم سیکھا اور اسے سکھایا اور تیری خاطر قرآن کی قرآت کی، اللہ فرمائے گا، تو جھوٹ کہتا ہے، تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا، تا کہ تجھے عالم کہا جائے گا اور تو نے قرآن پڑھا، تا کہ تجھے قاری کہا جائے گا، تو تیرا یہ مقصد حاصل ہو چکا، ( تیرے عالم اور قاری ہونے کا خوب چرچا ہوا) پھر اس کے بارے میں حکم ہوگا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک تیسرا آدمی ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے بھر پور دولت سے نوازا ہوگا اور اسے ہر قسم کا مال عنایت کیا ہو گا، اسے بھی لایا جائے گا اور اللہ اسے اپنی نعمتوں سے آگاہ فرمائے گا اور وہ ان کا اعتراف کر لے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا ، تو نے ان سے کیا کام لیا؟ وہ کہے گا، میں نے کوئی ایسا راستہ نہیں چھوڑا، جہاں تجھے خرچ کرنا پسند تھا، مگر تیری رضا کے حصول کی خاطر میں نے وہاں خرچ کیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو نے جھوٹ کہا، در حقیقت تو نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تا کہ تجھے سخی کہا جائے گا، (تیری فیاضی اور داد و دھش کے چرچے ہوں ) سو تیرا یہ مقصد تجھے حاصل ہو گیا، (دنیا میں تیری سخاوت اور داد وھش کے خوب چرچے ہوئے ) پھر اس کے بارے میں حکم ہوگا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔“
حدیث 30 :
«وعن ثوبان ، عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: لأعلمن أقواما من أمتي يأتون يوم القيامة بحسنات أمثال جبال تهامة بيضا ، فيجعلها الله عز وجل هباء منثورا ، قال ثوبان: يا رسول الله صفهم لنا، جلهم لنا ، أن لا نكون منهم ونحن لا نعلم ، قال: أما إنهم إخوانكم ومن جلدتكم ويأخذون، من الليل كما تأخذون ولكنهم أقوام إذا خلوا بمحارم الله انتهكوها»
سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد، رقم : 4245 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 505.
”اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت کے بعض ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز آئیں گے تو ان کی نیکیاں تہامہ پہاڑ کے برابر ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں غبار بنا کر اڑا دے گا۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! ہمیں ان کی نشانیاں کھول کر بتا ئیں تا کہ ہم بھی شعوری طور پر کہیں ان میں شامل نہ ہو جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سنو، وہ تمہارے ہی بھائی بند ہوں گے، تمہاری قوم سے ہوں گے جس طرح تم راتوں میں عبادت کرتے ہو، ایسے ہی وہ بھی راتوں میں عبادت کریں گے لیکن جب تنہائی میں ان کا واسطہ اللہ کی حرمتوں پر سے پڑے گا تو انہیں پامال کریں گے۔“
● داعی نفاق سے پاک ہونا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾
(2-البقرة:44)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟“
حدیث 31 :
«وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : أتيت ليلة أسرى بى على قوم تقرض شفاههم بمقاريض من نار ، كلما قرضت وفت، فقلت: يا جبريل من هؤلاء؟ قال: خطباء أمتك الذين يقولون مالا يفعلون، ويقرء ون كتاب الله ولا يعملون به»
صحيح الجامع الصغير للالباني، رقم 128.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جاتے اور پھر صحیح سالم ہو جاتے (پھر دوبارہ کاٹے جاتے ) میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطیب ہیں جو دوسروں کو وعظ کرتے تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے، اللہ کی کتاب پڑھتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔“
● داعی لوگوں کو شرک سے منع کرے
حدیث 32 :
«وعن قيس بن سعد ، قال: أتيت الحيرة فرأيتهم يسجدون لمرزبان لهم ، فقلت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حق أن يسجد له قال: فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم فقلت إنى أتيت الحيرة فرأيتهم يسجدون لمرزبان لهم ، فأنت يا رسول الله! أحق أن تسجد لك قال: أرأيت لو مررت بقبري أكنت تسجد له؟ قال: قلت لا ، قال: فلا تفعلوا، لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت النساء أن يسجدن لأزواجهن، لما جعل الله لهم عليهن من الحق»
سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، رقم : 2140۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح “کہا ہے۔
” اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں حیرہ (یمن کا شہر) آیا تو وہاں کے لوگوں کو اپنے حاکم کے آگے سجدہ کرتے دیکھا میں نے خیال کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ( ان حاکموں کے مقابلے میں ) سجدہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو عرض کی: یا رسول اللہ ! میں نے حیرہ کے لوگوں کو اپنے حاکم کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا بتاؤ اگر تمہارا گزر میری قبر پر ہو تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کرو گے؟ میں نے عرض کی: نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر اب بھی مجھے سجدہ نہ کرو اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس حق کے بدلے میں جو اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے مقرر کیا ہے۔“
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گلے میں صلیب لٹکانے سے منع فرمایا
حدیث 33 :
«وعن عدي بن حاتم رضی اللہ عنہ قال: أتيت النبى صلى الله عليه وسلم وفي عنقى صليب من ذهب ، فقال: يا عدي اطرح عنك هذا الوثن»
سنن الترمذی، ابواب تفسير القرآن، رقم : 3095 . محدث البانی نے اسے ”حسن “قرار دیا ہے۔
اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں (اسلام لانے کے لیے) حاضر ہوا۔ میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عدی! یہ بت گلے سے اتار کر پھینک دو۔“
● دعوت الی اللہ کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنا
حدیث 34 :
«وعن أنس بن مالك قال: جاء ناس إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقالوا: أن ابعث معنا رجالا يعلمونا القرآن والسنة ، فبعث إليهم سبعين رجلا من الأنصار ، يقال لهم القراء ، فيهم خالى حرام ، يقرثون القرآن، ويتدارسون بالليل يتعلمون، وكانوا بالنهار يجيتون بالماء فيضعونه فى المسجد، ويحتطبون فيبيعونه ، ويشترون به الطعام لاهل الصفة، وللفقراء فبعثهم النبى صلى الله عليه وسلم اليهم، فعرضوا لهم فقتلوهم، قبل أن يبلغوا المكان، فقالوا: اللهم بلغ عنا نبينا أنا قد لقيناك فرضينا عنك، ورضيت عنا ، قال: وآتى رجل حراما ، خال أنس ، من خلفه فطعنه برمح حتى انفذه ، فقال حرام: فزت، ورب الكعبة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: إن اخوانكم قد قتلوا، وإنهم قالوا: اللهم بلغ عنا نبينا أنا قد لقيناك فرضينا عنك، ورضيت عنا»
صحیح مسلم، کتاب الامارت ، رقم : 4917.
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے، آپ ہمارے ساتھ کچھ آدمی روانہ فرما ئیں، جو ہمیں قرآن وسنت کی تعلیم دیں، تو آپ نے ان کی قوم کی طرف ستر (70) انصاری آدمی روانہ فرمائے ، جنہیں قراء ( قرآن پڑھانے والے ) کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حرام رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ لوگ قرآن مجید پڑھتے تھے اور رات کو قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے اور سیکھتے اور دن کو پانی لا کر مسجد میں (لوگوں کے استعمال کے لیے) رکھتے اور لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچتے اور اس رقم سے اہل صفہ اور محتاجوں کے لیے خوراک خریدتے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( ان کی قوم کی) طرف بھیج دیا، دشمن ان کے سامنے آیا اور انہیں مقررہ جگہ تک پہنچنے سے پہلے قتل کر ڈالا، حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے دعا کی ، اے اللہ ! ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچا دے، کہ ہم تجھے مل چکے ہیں، ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ماموں حرام رضی اللہ عنہ کے پیچھے سے ایک آدمی آیا اور انہیں اس طرح نیزہ مارا کہ وہ پار ہو گیا، تو حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے کہا، رب کعبہ کی قسم! میں نے منزل کو پا لیا اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا، تمہارے بھائی شہید کر دیئے گئے ہیں اور انہوں نے دعا کی ہے، اے اللہ! ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچا دے، کہ ہم تجھے مل چکے ہیں اور تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔“
● داعی خلاف سنت عمل سے منع کرے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾
(31-لقمان:17)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے میرے چھوٹے بیٹے ! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور اس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے، یقینا یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔“
حدیث 35 :
«وعن ابن عمر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تمنعوا إماء الله أن يصلين فى المسجد . فقال ابن له: إنا لنمنعهن ، قال: فغضب غضبا شديدا ، وقال: أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول: إنا لنمنعهن ؟»
سنن ابن ماجه المقدمة رقم 16 ، صحيح ابن خزيمة، رقم : 1684، أبوداؤد، رقم: 575.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے کہا: ہم تو روکیں گے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: میں تیرے سامنے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے ۔“
● نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کو شرک سے منع کیا
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾
(26-الشعراء:214)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔“
حدیث 36 :
« وعن على رضی اللہ عنہ قال: لما نزلت هذه الآية ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿214﴾ قال: جمع النبى صلى الله عليه وسلم من أهل بيته ، فاجتمع ثلاثون فاكلوا وشربوا ، قال فقال لهم: من يضمن عنى ديني ومواعيدى ويكون معي فى الجنة ويكون خليفتي فى أهلي؟ فقال رجل : لم يسمه شريك يا رسول الله أنت كنت بحرا من يقوم بهذا؟ قال رضی اللہ عنہ : ثم قال الآخر ، قال: فعرض ذلك على أهل بيته ، فقال على رضى الله عنه : أنا»
مسند أحمد : 883/2۔ شیخ احمد شاکر نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب (سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 214)
﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿214﴾
” اور ڈراؤ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ۔“
نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا۔ تیس آدمی جمع ہوئے، انہوں نے کھایا پیا ( فراغت کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: میرے دین کو قبول کرنے اور وعدوں پر یقین کرنے کی ضمانت پر کون میرے ساتھ جنت میں جائے گا اور میرے اہل میں میرے بعد جانشین بنے گا؟ ایک آدمی نے عرض کی: یا رسول اللہ ! آپ تو (نیکی اور خیر کے ) سمندر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ پھر ایک اور آدمی نے بات کی۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات اپنے گھر والوں کے سامنے پیش کی۔ تب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشکش قبول کرتا ہوں۔“
● داعی زندگی کے آخری سانس تک ایمان لانے کا حکم دے
حدیث 37 :
«وعن سعيد بن المسيب، عن أبيه ، أنه أخبره: أنه لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده أبا جهل بن هشام ، وعبد الله بن أبى أمية بن المغيرة ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي طالب: يا عم قل: لا إله إلا الله، كلمة أشهد لك بها عند الله . فقال أبو جهل وعبد الله بن أبى أمية: يا أبا طالب، أترغب عن ملة عبد المطلب؟ فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه، ويعودان بتلك المقالة ، حتى قال أبو طالب: آخر ما كلمهم هو على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول: لا إله إلا الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما والله لاستغفرن لك ، ما لم أنه عنك فأنزل الله تعالى فيه ﴿مَا كَانَ لِلَّنِبِيّ﴾ الآية»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1360 .
” اور حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: چچا ! آپ ایک کلمہ لا اله الا الله اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں ۔ اس پر ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا ابو طالب ! کیا تم اپنے باپ عبد المطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمه اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابو جہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبد المطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تا آنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ ﴾ (التوبہ: 113) نازل فرمائی۔“
● داعی لوگوں کو نیکی کی باتیں سکھلائے
حدیث 38 :
«وعن ابن عباس رضی اللہ عنہا قال كنت خلف رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوما، فقال: يا غلام إنى أعلمك كلمات : احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله ، وإذا استعنت فاستعن بالله ، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام ، وجفت الصحف»
سنن ترمذی ابواب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم : 2516، المشكاة، رقم : 5302۔ محدث البانی نے اسے” صحیح “ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار ) تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! میں تجھے چند کلمے سکھاتا ہوں (جو یہ ہیں) اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر اللہ تعالیٰ ( دین و دنیا کے فتنوں میں ) تمہاری حفاظت فرمائے گا، اللہ تعالیٰ کو یاد کر ، تو تو اسے اپنے ساتھ پائے گا جب سوال کرنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے سوال کر، جب مدد مانگنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اچھی طرح جان لے کہ اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم ( تقدیر لکھنے والے) اٹھالیے گئے ہیں اور صحیفے جن میں تقدیر لکھی گئی ہے خشک ہو چکے ہیں۔ “
● امیر عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں اونچی آوازیں نکالنے سے منع فرمایا
حدیث 39 :
« وعن السائب بن يزيد ، قال كنت قائما فى المسجد فحصبني ، رجل ، فنظرت فإذا عمر بن الخطاب فقال: اذهب فأتني بهذين فجئته بهما قال: من أنتما؟ أو من أين أنتما؟ قالا من أهل الطائف ، قال لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما ، ترفعان أصواتكما فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم»
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : 470.
”اور حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی، میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں، آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ، میں بلا لایا، آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے، یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ (حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیئے بغیر نہ چھوڑتا۔ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟“
● داعی کفار و مشرکین کے پاس جا کر اسلام کی دعوت دے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾
(21-الأنبياء:25)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہذا تم میری ہی عبادت کرو۔“
حدیث 40 :
«وعن ربيعة بن عباد الدولي رضی اللہ عنہ يقول رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بمنى فى منازلهم قبل أن يهاجر إلى المدينة يقول: يا أيها الناس إن الله يأمركم أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا . قال: وراءه رجل يقول: يأيها الناس إن هذا يا مركم أن تتركوا دين آبائكم فسالت من هذا الرجل؟ قيل: أبولهب»
مستدرك الحاكم، كتاب الايمان ، رقم : 15/1۔ حاکم نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت ربیعہ بن عباد دولی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے مدینہ منورہ ہجرت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منی میں لوگوں کے خیموں میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے: لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی تھا جو کہ رہا تھا لوگو! یہ شخص تمہیں تمہارے آبائی دین کو چھوڑنے کا حکم دے رہا ہے (لہذا اس کی بات نہ مانو ) میں نے پوچھا یہ آدمی کون ہے؟ مجھے بتایا گیا یہ ابولہب ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين