امن و سلامتی سے متعلق چالیس صحیح احادیث

تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

● دین اسلام انسان کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ دیتا ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾
(2-البقرة:191)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت (گناہ) ہے۔ “

حدیث 1 :

«عن عبد الرحمن بن أبى بكرة، عن أبيه ، ذكر النبى صلی اللہ علیہ وسلم قعد على بعيره، وأمسك إنسان بخطامه أو بزمامه قال: أى يوم هذا؟ فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه سوى اسمه قال: أليس يوم النحر ؟ قلنا بلى . قال: ف أى شهر هذا؟ فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه فقال: أليس بذي الحجة؟ قلنا: بلى قال: فإن دمانكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا، فى شهركم هذا، فى بلدكم هذا، ليبلغ الشاهد الغائب ، فإن الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه .»
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم : 67 ، صحیح مسلم : 394/1-400 .
” حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ (ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج یہ کونسا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتی کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک (اس کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم اس پر بھی خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ (حدیث کا ) یاد رکھنے والا ہو۔“

● محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول رحمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
(21-الأنبياء:107)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (اے نبی!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔“

حدیث 2 :

« وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يأيها الناس إنما أنا رحمة مهداة .»
السلسلة الصحيحة، رقم : 490، مستدرك حاكم: 35/1، : 490، مستدرك حاكم 35/1 ، معجم صغیر طبرانی : 51/1 .
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میں تو صرف ایک تحفہ رحمت ہوں۔ “

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے گھر والوں پر رحمت

حدیث 3 :

«وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي ، وإذا مات صاحبكم فدعوه .»
سنن ترمذى ، أبواب المناقب، رقم : 3895 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 285.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہو اور میں تم سب میں سے اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہوں۔ جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کی بری باتیں کرنا چھوڑ دو۔ “

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں پر رحمت

حدیث 4 :

«وعن أنس ، قال : كان أرحم الناس بالصبيان والعيال .»
صحيح الجامع الصغير، رقم : 4797 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2089.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے لوگوں سے بڑھ کر بچوں اور گھر والیوں پر رحم فرمانے والے تھے۔ “

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مریضوں اور کمزوروں پر رحمت

حدیث 5 :

« وعن سهل بن حنيف عن أبيه رضى الله عنه مرفوعا . كان يأتى ضعفاء المسلمين، ويزورهم ، ويعود مرضاهم ، ويشهد جنائزهم .»
مستدرك حاكم: 466/2 ، سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 2112 .
”اور حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ضعفاء کے ہاں خود تشریف لے جاتے ، ان سے ملاقات فرماتے ، ان کے مریضوں کی عیادت فرماتے اور ان کے جنازوں میں شرکت فرماتے۔“

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزاروں اور غلاموں پر رحمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾
(5-المائدة:87)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” بے شک اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “

حدیث 6 :

«وعن أنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحسن الناس خلقا ، فأرسلنى يوما لحاجة فقلت: والله! لا اذهب وفي نفسى ان اذهب لما أمرني به نبي الله صلى الله عليه وسلم فخرجت حتى أمر على صبيان وهم يلعبون فى السوق ، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قبض بقفاي من ورائي، قال فنظرت إليه وهو يضحك، فقال: يا أنيس! أذهبت حيث أمرتك؟ قال: قلت: نعم! أنا أذهب يا رسول الله صلى الله عليه وسلم .»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6015 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کا حکم دیا تو میں نے (مذاقا ) کہا، اللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گا۔حالانکہ میرے دل میں یہی تھا کہ جس بات کا آپ نے حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا۔ میں باہر نکلا تو میرا گزر کچھ لڑکوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے (میں نے بھی کھیلنا شروع کر دیا ) اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے آکر مجھے گردن سے پکڑ لیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( پیار سے ) ارشاد فرمایا: انیس! (انس کی تصغیر) میں نے تمہیں جس کام کے لیے بھیجا تھا ادھر گئے ہو؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! بس ابھی جاتا ہوں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے آپ کی مسلسل نو سال خدمت کی، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کوئی کام نہ کیا ہو تو آپ نے پوچھا ہو کہ کیوں نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ہو، کیوں کیا ہے؟“

حدیث 7 :

«وعن عبد الله بن عمر ، قال جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! كم أعفو عن الخادم؟ فصمت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم قال: يا رسول الله كم أعفو عن الخادم؟ فقال: كل يوم سبعين مرة .»
سنن ترمذى أبواب البر والصلة، رقم : 1949 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 488.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا، یارسول اللہ! میں اپنے نوکر کو دن میں کتنی مرتبہ معاف کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ اس آدمی نے دوبارہ عرض کیا، یارسول اللہ ! میں اپنے نوکر کو کتنی مرتبہ معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔ “

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفار و مشرکین پر رحمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ﴾
(16-النحل:126)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اگر تم بدلہ لوتو اتنا ہی بدلہ لوجتنی تمھیں تکلیف دی گئی ہو، اور اگر تم صبر کرو تو وہ صابرین کے لیے بہت بہتر ہے۔ “

حدیث 8 :

«وعن أبى هريرة قال قيل يا رسول الله ! ادع على المشركين قال: إنى لم أبعث لعانا وإنما بعثت رحمة .»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6613.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشرکین کو بدعا دینے کی درخواست کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے تو سراپا رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ “

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بددعا نہیں دیتے تھے

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
(2-البقرة:256)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”دین میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت ، گمراہی سے واضح ہو چکی ہے، پھر جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو یقیناً اس نے ایک مضبوط کڑا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے۔ “

حدیث 9 :

«وعن عمرو بن أبى قرة قال: كان حذيفة بالمدائن فكان يذكر أشياء قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى حذيفة سلمان ، وهو فى مبقلة ، فقال: يا سلمان ما يمنعك أن تصدقني بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقال سلمان: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغضب فيقول فى الغضب لناس من أصحابه ، ويرضى فيقول فى الرضا لناس من أصحابه أما تنتهى حتى تورث رجالا حب رجال ، ورجالا بغض رجال ، وحتى توقع اختلافا، وفرقة، ولقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب فقال: أيما رجل من أمتي سببته سبة، أو لعيته لعنة فى غضبى فإنما أنا من ولد آدم أغضب كما يغضبون ، وإنما بعثني رحمة للعالمين ، فاجعلها عليهم صلاة يوم القيامة»
مسند أحمد : /437، سنن أبو داؤد، كتاب السنة ، رقم : 4659۔ علامہ البانی اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے ۔ بسا اوقات احادیث رسول کا مذاکرہ رہا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت حذیفہ رضی الله عنہ ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے حذیفہ ! ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کر دی ہو، تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہوں ، تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آ جاتا ہے۔ ہاں! البتہ میں چونکہ رحمۃ للعالمین ہوں ، تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی (قیامت کے روز ) ان لوگوں کے لیے موجب رحمت بنا دے۔“

● آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیوانات اور جمادات پر رحمت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾
(68-القلم:4)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور بلاشبہ یقینا آپ ایک بڑے خلق پر ہیں۔“

حدیث 10 :

«وعن جابر أن النبى صلى الله عليه وسلم مر عليه بحمار قد وسم فى وجهه ، فقال: أما بلغكم أني قد لعنت من وسم البهيمة فى وجهها ، أو ضربها فى وجهها؟ فنهى عن ذلك»
سنن أبو داؤد، کتاب الجهاد، رقم : 2564 ۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے جانور کے چہرے پر داغ لگانے والے یا جانور کے چہرے پر مارنے والے پر لعنت کی ہے۔ پھر آپ نے ایسے کرنے سے منع فرمایا ۔ “

حدیث 11 :

«وعن ابن مسعود ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ارحم من فى الأرض ، يرحمك من فى السماء»
معجم صغير للطبراني، ص : 647 ، صحيح الجامع الصغير، رقم : 896 .
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔“

حدیث 12 :

«وعن عبد الرحمن بن عبد الله رضی اللہ عنہ ، قال : نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا ، فانطلق إنسان إلى غيضة ، فأخرج بيض حمرة فجاءت الحمرة ترق على رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم ورءوس أصحابه ، فقال: أيكم فجع هذه؟ فقال رجل من القوم: أنا أصبت لها بيضا ، قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : أردده»
الفتح الرباني ، رقم : 9205 ، سنن ابو داؤد، رقم : 2675-5268۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا عبدالرحمن بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا ، ایک آدمی جھاڑی کی طرف گیا اور ( چڑیا کی طرح کے) سرخ پرندے کے انڈے نکال لایا، پس وہ پرندہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سروں پر پھڑ پھڑانے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کس نے اس کو تکلیف دی ہے؟ اس صحابی نے کہا: میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انہیں واپس رکھ دو۔“

حدیث 13 :

«وعن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: دخلت امرأة النار فى هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم : 3318 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی، اس نے بلی کو باندھا اور اسے نہ کھلایا، اور نہ پلایا، اور نہ ہی اسے قید سے چھوڑا کہ زمین کے جانور شکار کر کے کھاتی یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی۔ “

حدیث 14 :

« وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نزل نبي من الأنبياء تحت شجرة فلدغته نملة فأمر بجهازه فأخرج من تحتها ، ثم أمر ببيتها ، فأحرق بالنار فأوحى الله إليه: فهلا نملة واحدة؟»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق ، رقم : 3319 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ ایک نبی کسی درخت کے نیچے ٹھہرے، ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا اس پر انہوں نے اپنا سامان وہاں سے اٹھوایا، پھر آگ منگوا کر ساری چیونٹیاں جلا دیں، اس پر ان کی طرف وحی کی گئی کہ کیوں نہ ایک ہی قصور وار چیونٹی کو مارا ہوتا ۔ “

حدیث 15 :

« وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من قتل وزغة فى اول ضربة فله كذا وكذا حسنة ، ومن قتلها فى الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة ، لدون الأولى، وإن قتلها فى الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة ، لدون الثانية .»
صحيح مسلم، کتاب السلام، رقم : 5846، 5847.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے گرگٹ کو پہلی ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی نیکیاں ملیں گی اور جس نے اسے دوسری ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی یعنی پہلے سے کم نیکیاں ملیں گی اور جس نے تیسری ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی یعنی دوسری سے کم نیکیاں ملیں گی۔ “

● نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور سے کسی سے انتقام نہیں لیا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
(49-الحجرات:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں۔“

حدیث 16 :

«وعن عائشة قالت: ما ضرب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شيئا قط بيده. ولا امرأة ، ولا خادما ، إلا أن يجاهد فى سبيل الله ، وما نيل منه شيء قط، فينتقم من صاحبه ، إلا أن ينتهك شيء من محارم الله، فينتقم لله عز وجل»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6050 .
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں جہاد کے سوا کسی عورت یا غلام کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں پیٹا اور کبھی آپ کو کسی طریقہ سے اذیت پہنچائی گئی تو آپ نے اس وجہ سے کسی سے انتقام لیا ہو، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو اللہ عزوجل کی خاطر انتقام لیتے۔“

حدیث 17 :

«وعن عائشة رضی اللہ عنہ قالت: لم يكن فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا فى الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح»
سنن ترمذی ، کتاب البر والصلة، رقم: 2016 ، مستدرك حاكم: 613/2۔ حاکم اور علامہ البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو فخش گو تھے ، نہ فحش باتوں کو پسند فرماتے تھے ، نہ بازاروں میں اونچی آواز سے باتیں کرتے تھے، اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ عفو و درگزر سے کام لینے والے تھے ۔“

● نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری

حدیث 18 :

«وعن جابر بن عبد رضي الله عنها أخبره أنه ، غزا مع النبى صلى الله عليه وسلم فأدركتهم القائلة فى واد كثير العضاء ، فتفرق الناس فى العضاء يستظلون بالشجر ، فنزل النبى صلى الله عليه وسلم تحت شجرة فعلق بها سيفه ثم نام ، فاستيقظ وعنده رجل وهو لا يشعر به. فقال النبى صلى الله عليه وسلم : إن هذا اخترط سيفى . فقال من يمنعك قلت: الله فشام السيف فها هو ذا جالس ثم لم يعاقبه»
صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير، رقم : 2913 .
” اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ایک ایسے جنگل میں جہاں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ قیلولہ کا وقت ہو گیا، تمام صحابہ سائے کی تلاش میں پوری وادی میں متفرق درختوں کے نیچے پھیل گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ( درخت کے تنے سے ) لٹکا دی تھی اور سو گئے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اجنبی موجود تھا اس اجنبی نے کہا تھا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور جب صحابہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور مجھ سے کہنے لگا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ (اس پر وہ شخص خود ہی دہشت زدہ ہو گیا ) اور تلوار نیام میں کر لی، اب یہ بیٹھا ہوا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی ۔“

● رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کی تیمارداری کے لیے جاتے

حدیث 19 :

«وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: كان غلام يهودى يخدم النبى صلی اللہ علیہ وسلم فمرض ، فأتاه النبى صلى الله عليه وسلم يعوده ، فقعد عند رأسه فقال له: أسلم ، فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له: أطع أبا القاسم ، فأسلم فخرج النبى صلى الله عليه وسلم وهو يقول: الحمد لله الذى أنقذه من النار»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، فرقم : 1356 .
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک یہودی لڑکا (عبد القدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا ، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے) ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔“

● سب برابر، عزت دار متقی

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴾
(17-الإسراء:70)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے اور انھیں بر و بحر میں سواریاں دیں، اور انھیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اور انھیں اپنی کثیر مخلوقات پر جنھیں ہم نے پیدا کیا، فضیلت دی۔“

حدیث 20 :

«وعن أبى نضرة حدثنى من سمع خطبة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فى أيام التشريق فقال: أيها الناس ، إن ربكم واحد ، وإن آباكم واحد، كلكم من آدم ، وآدم من تراب۔ إن أكرمكم عند الله أتقاكم ، وليس لعربي على أعجمي فضل إلا بالتقوى»
حلية الأولياء : 100/3، مسند احمد ، 411/5، رقم: 2489۔ شیخ شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو ”صحیح “ کہا ہے۔
” اور حضرت ابونضرہ فرماتے ہیں کہ مجھے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اس شخص نے بیان کیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ حجۃ الوداع سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تمہارا رب ایک اور تمہارا باپ ایک تم سب آدم کے (بیٹے ) ہو اور آدم مٹی سے (پیدا کیے گئے ) تھے۔ تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے شریف وہ انسان ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضلیت نہیں، مگر تقوی ہی کے سبب سے۔ “

● اسلام دین امن و سلامتی

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
(6-الأنعام:54)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ دیجیے تم پر سلام ہو تمھارے رب نے مہربانی کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ بے شک تم میں سے جو شخص جہالت سے براعمل کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“

حدیث 21 :

«وعن أبى موسى رضی اللہ عنہ قال: قالوا يا رسول الله! أى الإسلام أفضل؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه ويده»
صحيح بخاري، كتاب الإيمان، رقم : 11 ، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : 62.
” اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فر مایا: وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔“

● تمام مخلوقات سے احسان کا معاملہ کرو

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ﴾
(85-البروج:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہی ہے جو بے حد بخشنے والا ، نہایت محبت کرنے والا ہے۔“

حدیث 22 :

«وعن أبى هريرة، وعن عبد الله رضی اللہ عنہا ، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : الخلق عيال الله، فأحب الخلق إلى الله من احسن إلى عياله»
حلية الأولياء : 237/4 ، مجمع الزوائد : 191/8 ، شعب الإيمان للبيهقي : 42/6، المشكاة، رقم : 4998، 4999.
”اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، لہذا جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ بندہ ہے۔ “

حدیث 23 :

«وعن أبى هريرة، قال: سمعت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: لا تنزع الرحمة إلا من شقي»
سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، رقم : 1923 ۔ محدث البانی نے اسے ”حسن“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے تھے ۔ بد بخت انسان سے مادہ رحمت چھین لیا جاتا ہے۔ “

● خالق کا ئنات بھی رحیم ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾
(6-الأنعام:12)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ان سے پوچھیے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کے لیے ہے؟ کہہ دیجیے: اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس نے (مخلوق پر ) مہربانی کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ وہ قیامت کے دن تمھیں ضرور جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا ہے، تو ہ وہ ایمان نہیں لاتے ۔ “

حدیث 24 :

«وعن عمر بن الخطاب قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبي، فإذا امرأة من السبي تسعى إذا وجدت صبيا فى السبي فاخذته، فالصقته ببطنها وارضعته ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اترون هذه المرأة طارحة ولدها فى النار؟ قلنا: لا والله، و هي تقدر على أن لا تطرحه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عزوجل ارحم بعباده من هذه المرأة بولدها .»
صحيح بخارى، كتاب الأدب، رقم : 5999 ، معجم صغير للطبراني، رقم : 665
”اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے قیدیوں میں ایک عورت دیوانہ وار بھاگ رہی تھی جب اس نے قیدیوں میں اپنا بچہ دیکھا تو اس کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور دودھ پلانے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کیا یہ عورت اپنے بیٹے کو آگ میں پھینک سکتی ہے؟ ہم نے کہا کہ وہ ہر گز نہیں پھینکے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل اپنے بندوں پر اس عورت کے اپنے بچے کے ساتھ رحم کرنے سے زیادہ رحیم ہے۔“

● کسی ذمی پر بھی ظلم نہ کرو

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ ﴿وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ﴾
(43-الزخرف:39)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور آج یہ بات تمھیں ہرگز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔“

حدیث 25 :

«عن أبى صخر المديني ، أن صفوان بن سليم أخبره، عن عدة من أبناء أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، عن آبائهم دنية ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا من ظلم معاهدا ، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته ، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس: فأنا حجيجه يوم القيامة»
سنن ابو داود، کتاب الخراج ، رقم 3052۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار! جس کسی نے کسی عہد والے (ذمی) پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی (یعنی اس کے حق میں کمی کی ) یا اس کی ہمت سے بڑھ کر اسے کسی بات کا مکلف ٹھہرایا یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔ “

حدیث 26 :

« وعن أبى ذر رضی اللہ عنہ عن النبى صلى الله عليه وسلم ، فيما روى عن الله تبارك وتعالى أنه قال: يا عبادى إني حرمت الظلم على نفسي ، وجعلته بينكم محرما ، فلا تظالموا، يا عبادي كلكم ضال إلا من هديته، فاستهدوني أهدكم، يا عبادي كلكم جائع إلا من أطعمته، فاستطعموني أطعمكم ، يا عبادى ! كلكم عار إلا من كسوته، فاستكسوني أكسكم ، يا عبادي إنكم تخطئون بالليل والنهار، وأنا اغفر الذنوب جميعا ، فاستغفرونى اغفر لكم ، يا عبادي إنكم لن تبلغوا ضرى فتضروني ، ولن تبلغوا نفعى فتنفعوني ، يا عبادي لو أن اولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، كانوا على أتقى قلب رجل واحد منكم ، ما زاد ذلك فى ملكي شيئا، يا عبادي لو ان اولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، كانوا على أفجر قلب رجل واحد منكم ، ما نقص ذلك من ملكي شيئا، يا عبادي! لو ان اولكم وآخركم ، وإنسكم وجنكم ، قاموا فى صعيد واحد فسألوني ، فاعطيت كل إنسان مسألته ، ما نقص ذلك مما عندى إلا كما ينقص المخيط إذا أدخل البحر ، يا عبادى إنما هى أعمالكم أحصيها لكم ، ثم أوفيكم إياها ، فمن وجد خيرا فليحمد الله، ومن وجد غير ذلك فلا يلومن إلا نفسه»
صحيح مسلم ، کتاب البر والصلة، رقم : 6572.
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام ٹھہرایا ہے، لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم تمام راہ راست سے ہٹے ہوئے ہو، مگر جس کو میں راہ یاب کروں، اس لیے مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھو کے ہو مگر جس کو میں کھلا دوں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو، مگر جس کو میں لباس پہنا دوں، اس لیے تم مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں لباس دوں گا۔
اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ، قصور کرتے ہو اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، لہذا سب مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور نہ تم مجھے نفع پہنچانے کی سکت تک پہنچ سکو گے کہ مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی آدمی کے دل والے ہو جائیں، اس سے میرے اقتدار میں کچھ اضافہ نہیں ہوگا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن، تم میں سب سے زیادہ بدکار دل کے آدمی جیسے ہو جائیں، اس سے میرے اقتدار میں کچھ کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تم میں سے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن، ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگیں، چنانچہ میں ہر فرد کا مطالبہ پورا کر دوں تو میرے خزانوں میں صرف اتنی کمی ہوگی ، جتنی سوئی کو سمندر میں ڈالنے سے کمی ہو، اے میرے بندو! یہ تو تمہارے اعمال ہی ہیں جن کو میں تمہارے لیے محفوظ کر رہا ہوں، پھر وہ پورے پورے تمہیں دے دوں گا، پس جس کو خیر ملے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جس کو اس کے سوا ملے، وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ۔“

حدیث 27 :

«وعن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہا قال قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : المسلم أخو المسلم ، لا يظلمه ولا يسلمه، من كان فى حاجة أخيه كان الله فى حاجته ، و من فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة»
صحیح بخاری، کتاب المظالم ، رقم : 2310 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی (دنیوی) مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔“

حدیث 28 :

«وعن أبى هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أتدرون من المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع ، فقال: ان المفلس من أمتي، من يأتى يوم القيامة بصلوة وصيام وزكوة، ويأتي قد شتم هذا ، وقذف هذا، وأكل مال هذا ، وسفك دم هذا ، وضرب هذا ، فيعطى هذا من حسناته وهذا من حسناته ، فإن فنيت حسناته ، قبل أن يقضى ما عليه ، أخذ من خطاياهم فطرحت عليه ، ثم طرح فى النار»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : 6579.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی درہم نہیں ہے اور نہ کسی قسم کا سامان ہے، آپ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکاۃ لے کر حاضر ہوگا اور ساتھ ہی یہ صورت ہوگی، کسی کو گالی دی ہے، کسی پر بہتان باندھا ہے، کسی کا مال ہڑپ کیا ہے، کسی کا خون بہایا ہے، کسی کو مارا پیٹا ہے تو اس کو بھی اس کی نیکیاں دے دی جائیں اور اس کو بھی نیکیاں مل جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی لیکن حقوق ادا نہیں ہو سکیں گے تو پھر ان لوگوں کے قصور اور کوتاہیاں، ان سے لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی، پھر ان کی پاداش میں آگ میں پھینک دیا جائے گا۔

● مومن کے خون اور مال کی حرمت

حدیث 29 :

«وعن عبد الله بن عمر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة ، ويقول: ما أطيبك وأطيب ريحك، ما أعظمك و أعظم حرمتك ، و الذى نفس محمد بيده، لحرمة المومن اعظم عند الله حرمة منك ماله و دمه ، و أن نظن به إلا خيرا »
سنن ابن ماجه ،کتاب الفتن، رقم: 3932 ، مسند الشاميين 396/2 ، رقم 1598: سلسلة الصحيحة، رقم: 5309.
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ ارشاد فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں حسنِ ظن ہی رکھنا چاہیے۔“

● ہتھیار اٹھا کے کسی کی طرف ویسے بھی اشارہ نہ کرو

حدیث 30 :

«وعن أبى هريرة يقول: قال أبو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم : من أشار إلى أخيه بحديدة فإن الملائكة تلعنه حتى يدعه وإن كان أخاه لابيه وأمه»
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة رقم 6666 ، سنن ترمذی، کتاب الفتن رقم: 2162
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جس نے اپنے بھائی کی طرف تیز دھار آلہ سے اشارہ کیا، (اس کو ڈرانے یا خوف زدہ کرنے کے لیے ) تو فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے، حتی کہ اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ “

● دہشت گردوں کا ساتھ دینا حرام ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ‎(84) ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ(85)﴾
(2-البقرة:84، 85)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا کہ تم اپنے خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا اور تم خود شہادت دیتے ہو۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے آپ کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو، ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد گناہ اور زیادتی کے ساتھ کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمھارے پاس آئیں تو ان کا فدیہ دیتے ہو، حالانکہ اصل یہ ہے کہ ان کا نکالنا تم پر حرام ہے، پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔“

حدیث 31 :

«وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من أعان على قتل مؤمن بشطر كلمة لقى الله عز وجل مكتوب بين عينيه آيس من رحمة الله»
سنن ابن ماجه كتاب الديات، رقم : 2620
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ عز وجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا : یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گا ۔ “

● ایک شخص کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی بڑا گناہ ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ﴾
(5-المائدة:32)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو قتل کر دے، سوائے اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد کرنے والا ہو، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک جان کو (ناحق قتل ہونے سے) بچائے ، تو گویا اس نے تمام لوگوں کی جان بچائی۔ اور ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے ، پھر بے شک اس کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں حد سے نکل جانے والے ہیں۔“

حدیث 32 :

« وعن عبد الله بن عمرو أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لزوال الدنيا اهون على الله من قتل رجل مسلم»
سنن ترمذی، کتاب الديات، باب ما جاء فى تشديد قتل المومن، رقم: 1395، سنن نسائی کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم ،رقم 3987، سنن ابن ماجه، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، رقم: 2619 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا نا پید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔ “

حدیث 33 :

وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ قَتَلَ روا مُعَاهَدًا لَمْ يَرُحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا
صحیح بخاری، کتاب الجزية، رقم : 3166.
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جاسکتی ہے۔“

● معاشرہ میں قیام امن کے لیے دیت و قصاص

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
(5-المائدة:45)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ہم نے (تورات میں) ان کے لیئے لکھ دیا تھا کہ بے شک جان کے بدلے جان ہے، اور آنکھ کے بدلے آنکھ، اور ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کا قصاص ہے، پھر جو شخص اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جولوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں۔“

حدیث 34 :

«وعن الحكم بن عتيبة أن عليا قال: دية اليهودي و النصراني وكل ذمي مثل دية المسلم»
مصنف عبد الرزاق : 97/10 ، 98
”اور حکم بن عتیبہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہودی، عیسائی اور ہر معاہد کی دیت ایک مسلمان کی طرح کی دیت ہے۔ “

حدیث 35 :

«وعن عبد الله قال قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : أول ما يقضى بين الناس فى الدماء»
صحیح بخاری کتاب الديات، رقم : 6864 ، صحیح مسلم، رقم : 1678/28 .
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حقوق العباد میں سے روز قیامت سب سے پہلے کسی کے ناجائز خون بہانے کے بارے میں فیصلہ ہوگا۔“

حدیث 36 :

«وعن أبى سعيد الخدرك وأبي هريرة يذكران عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لو أن أهل السماء وأهل الأرض اشتركوا فى دم مؤمن لأكبهم الله فى النار»
سنن ترمذى، كتاب الديات، باب الحكم في الدماء ، رقم: 1398 ۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگر تمام آسمان و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ “

● کسی کو بھی ناجائز تنگ کرنے کی وعید

حدیث 37 :

«وعن هشام عن أبيه قال: مر هشام بن حكيم بن حزام على أناس من الأنباط بالشام ، قد أقيموا فى الشمس، فقال: ما شأنهم؟ قالوا حبسوا فى الجزية ، فقال هشام: أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله يعذب الذين يعذبون الناس فى الدنيا»
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق، رقم: 6658
”اور حضرت ہشام رحمہ اللہ اپنے باپ ( عروہ رحمہ اللہ ) سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا گزر شام کے کچھ کسانوں پر ہوا، انہیں دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا تو انہوں نے پوچھا، ان کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے بتایا، انہیں جزیہ ( کی وصولی) کی خاطر روکا گیا ہے، چنانچہ حضرت ہشام رحمہ اللہ نے کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا، جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں۔ “

● غیر مسلم مذہبی پادریوں کے قتل کی ممانعت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
(2-البقرة:217)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”(اے نبی ! ) لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں لڑائی کیسی ہے؟ کہہ دیجیے : اس میں لڑائی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے ( روکنا ) اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑا ( گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی قتل سے کہیں بڑا گناہ ہے۔ اور وہ (کافر) تو ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے ، پھر وہ حالت کفر ہی پر مر جائے ، تو انھی لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت (دونوں) میں برباد ہو گئے اور وہ لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“

حدیث 38 :

« وعن عبد الله بن عباس، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث جيوشه قال لا تغدروا ، ولا تغلوا، ولا تمتلوا، ولا تقتلوا الولدان، ولا أصحاب الصوامع»
مسند احمد بن حنبل 330/1 ، رقم: 2728 ، مصنف ابن ابي شيبة 484/6، رقم: 33132 ، مسند ابو يعلي: 422/4، رقم: 2549.
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم صادر فرماتے: غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا ۔“

● دوران جنگ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت

حدیث 39 :

«وعن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: وجدت امرأة مقتولة فى بعض مغازى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل النساء والصبيان»
صحیح بخاری، کتاب الجهاد و السير، رقم: 2852 ، صحيح مسلم، كتاب الجهاد و السير، رقم: 1744 .
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سختی سے) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی۔ “

● غیر مسلم لوگوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنا ممنوع ہے

حدیث 40 :

«وعن معاذ بن أنس الجهني عن أبيه قال: غزوت مع نبي الله صلی اللہ علیہ وسلم غزوة كذا وكذا ، فضيق الناس المنازل ، وقطعوا الطريق ، فبعث نبي الله صلی اللہ علیہ وسلم منا ديا ينادي فى الناس : أن من ضيق منزلا أو قطع طريقا فلا جهاد له»
سنن ابو داود، كتاب الجهاد، رقم: 2629۔ محدث البانی نے اسے ”حسن“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعض لوگوں نے دوسروں کے راستے کو تنگ کیا اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیج کر اعلان کروایا: جو شخص دوسروں کے گھروں میں گھس کر تنگ کرے یا راستوں میں لوٹ مار کرے اس کا یہ (دہشت گردانہ ) عمل جہاد نہیں کہلائے گا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء