تیمم سے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی مل جائے تو کیا کریں؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سوال:

مسافر آدمی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے اول وقت میں نماز پڑھ لیتا ہے، پھر اسی نماز کے آخری وقت میں اسے پانی مل جائے تو وہ کیا کرے؟

جواب :

مسافر آدمی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمّم کر کے اوّل وقت نماز ادا کر لے، پھر پانی ملنے پر اسے اختیار ہے کہ وہ نماز کو دوہرائے یا نہ دوہرائے، جیسا کہ :

❀ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ، فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا، فَصَلَّيَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فَي الْوَقْتِ، فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ، وَلَمْ يُعِدِ الْاؔ خَرُ، ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللهُ عََلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَا ذٰلِكَ لَہ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ : (أَصَبْتَ السُّنَّةَ، وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ)، وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ : لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ

”دو آدمی سفر میں نکلے۔ نماز کا وقت ہوا تو ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ دونوں نے پاک مٹی سے تمیّم کر کے نماز ادا کی، پھر نماز کے وقت ہی میں انہیں پانی مل گیا ـ ایک شخص نے تو وضو کر کے نماز دوبارہ پڑھ لی، جبکہ دوسرے نے ایسا نہ کیا۔ پھر دونوں ( سفر سے واپسی پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ساری بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ دوہرانے والے سے فرمایا : تم صحیح طریقے پر چلے ہو اور پہلی نماز ہی تمہیں کافی ہے۔ وضو کر کے دوہرانے والے سے فرمایا : تمہیں دوہرا اجر مل گیا ہے۔ “

[ سنن أبى داؤد : 338، سنن النسائي : 433، مسند الدارمي : 744، المستدرك للحاكم : 286/1 ]

◈ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے شیخین کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

➋ نافع مولیٰ ابن عمر بیان کرتے ہیں :

تَيَمَّمَ ابْنُ عُمَرَ عَلٰي رَأْسِ مِيْلٍ أَوْ مِيْلَيْنِ مِنَ الْمَدِيْنَةِ، فَصَلَّي الْعَصْرِ، فَقَدِمَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، وَلَمْ يُعِدِ الصَّلَاةَ .

”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مدینہ سے ایک یا دو میل کی مسافت پر تیمّم کر کے عصر کی نماز ادا کی، پھر واپس( مدینہ) آ گئے، اس وقت سورج بلند ہی تھا، لیکن آپ رضی اللہ عنہما نے نماز نہیں دوہرائی۔“

[سنن الدارقطني : 86/1، المستدرك للحاكم : 289/1، السنن الكبرٰي للبيهقي : 231/1، 233، وسندهٗ صحيحٌ ]

◈ مدنی فقیہ، تابعی، امام ابوالزناد، عبداللہ بن ذکوان رحمہ الله فقہائے سبعہ ( تابعین میں سے مدینہ منورہ کے سات فقہائے کرام، عروہ بن زبیر، سعید بن مسیّب، قاسم بن محمد بن ابوبکر، خارجہ بن زید، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، سلیمان بن یسار رحمها اللھ ) کے بارے میں بیان فرماتے ہیں :

وَكَانُوا يَقُولُونَ : مَنْ تَيَمَّمَ، فَصَلّٰي، ثُمَّ وَجَدَ الْمَاءِ فِي وَقْتٍ أَوْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ، فَلَا إِعَادَةَ عَلَيْهِ، وَيَتَوَضَّأُ لِمَا يَسْتَقْبِلُ مِنَ الصَّلَوَاتِ وَيَغْتَسِلُ، وَالتَّيَمُّمُ مِنَ الْجَنَابَةِ وَالْوُضُوءِ سَوَاءٌ .

”فقہائے سبعہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے تیمّم کر کے نماز ادا کی، پھر نماز کے وقت ہی میں پانی ملا یا وقت گزرنے پر، اس نماز کو دوہرانا ضروری نہیں ـ ہاں ! آئندہ کی نمازوں کے لیے وضو اور غسل کرنا پڑے گا ـ جنات اور بے وضو ہونے کے تمیّم کا ایک ہی حکم ہے ـ “

[السنن الكبرٰي للبيهقي : 232/1، تاريخ دمشق لابن عساكر : 250/40، وسندهٗ حسنٌ ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے