در مختار پر ایک طائرانہ نظر
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کی جانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

در مختار پر ایک طائرانہ نظر

ہمارے مخاطب جھنگوی صاحب نے در مختار کی بھی تعریف کی ہے کہ یہ مدینہ کی تصنیف ہے۔ جس کے اہل حدیث منکر ہونے کی وجہ سے مدینہ کی عظمت و شرف کے منکر ہو گئے ہیں۔ ہم نو نقد نہ تیرا ادھار کے تحت یہیں در مختار کے حیا سوز مسائل کی نشان دہی بھی کرنا چاہتے ہیں۔
( ولا عند وطى بهيمة )
یعنی جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے سے نہ تو غسل لازم آتا ہے نہ وضو ٹوتا ہے۔ جب تک انزال نہ ہو۔
(در مختار مع شامی ص 166 ج 1 طبع ایچ ایم سعید کراچی)
علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں کہ پہلے عرض کیا گیا ہے اس کے خلاف سنت اور اجماع ہے کہ غسل واجب ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے اصحاب کے نزدیک بہر حال غسل واجب نہیں ہوتا۔ پھر احادیث صحیحہ کی تاویلات کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں کہ
(فقال علماؤنا ان الموجب للغسل هو انزال المني كما افاده الحديث الاول)
یعنی ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ غسل اس وقت فرض ہوتا ہے جب منی خارج ہو ( بدون انزال کے غسل واجب نہیں ہوتا) جیسا کہ پہلی حدیث کا مفاد ہے۔
( البحر الرائق ص 59 ج1)
مولوی قطب الدین فرماتے ہیں کہ
اگر چار پائے اور مردے کے آگے یا پیچھے داخل کرے تو منزل (منی خارج )ہونے سے (غسل) لازم آتا ہے وگرنہ نہیں۔
( مظاہر حق ص 150 ج 1)
شارح منیہ کہتے ہیں کہ یہی اصح ہے کہ غسل واجب نہیں ہوتا۔
(حلبي كبير ص 42)
الغرض در مختار کا یہ فتویٰ حنفیہ کا متفق اور مفتی بہ فتویٰ ہے کہ چار پائے سے بد فعلی کی (کس مہذب انداز میں رخصت دی جارہی ہے) کہ اگر انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی وضو ٹوٹتا ہے۔
(وأفاد كلامه طهارة جلد كلب وقيل وهو المعتمد )
یعنی صاحب تنویر کے کلام کا مفاد یہ ہے کہ ہاتھی اور کتے کی کھال پاک ہے۔ اس کی شرح میں ابن عابدین فرماتے ہیں کہ اس وجہ سے کہ کتا نجس العین نہیں۔ تصحیح کے لحاظ سے یہی اصح ہے۔
(ردالمختار ص 204 ج1)
مطلع صاف ہے کہ اگر جھنگوی صاحب کتے کی کھال کی جیکٹ بنوائیں یا ٹوپی خواہ ڈول یا دستر خوان یا اپنی کتب پر جلدیں بند ھوائیں سب جائز ہے۔
بلکہ اگر اس کھال کا مصلیٰ بھی بنالیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
(ثم الاحسن زوجة )
یعنی امامت کی ابتدائی شرائط میں اگر برابری ہو تو اسے امام بنایا جائے جس کی بیوی خوبصورت ہو۔ پھر آگے لکھا ہے کہ
ثم الاكبر راسا و الاصغر عضوا
یعنی اگر ان تمام شرائط میں برابر ہوں تو امام وہ بنے جس کا سر بڑا اور عضو چھوٹا ہو۔ پھر عضو کی وضاحت کرتے ہوئے شارح فرماتے ہیں کہ مراد اس سے ذکر ہے۔
(در مختار مع ردالمختار ص 558 ج 1)
الغرض بقول مصنف در مختار حنفیہ کا یہ موقف ہے کہ امامت میں مقدم وہ ہوگا جس کی بیوی خوبصورت ہو سر بڑا اور ذکر چھوٹا ہو۔
اگر پیمائش کے پیمانہ کی تفصیل بھی بتا دیتے تو مسئلہ پوری طرح واضح ہو جاتا۔
(ولوخاف الزنى يرجى ان الاوبال عليه )
اگر زنا کا اندیشہ ہو تو مشت زنی کرے تو کوئی وہاں نہ ہوگا۔ اس کی شرح میں ابن عابدین فرماتے ہیں کہ اگر زنا سے بچاؤ کا یقین ہو تو مشت زنی کرنی واجب ہے۔
نوجوانوں کے لئے کتنا تیر بہدف نسخہ ہے۔
(در مختار مع ردالمختار ص 399 ج2)
(او جامع فيما دون الفرج ولم ينزل)
یعنی اگر روزے کی حالت میں شرم گاہ کے علاوہ مجامعت کرے اور انزال نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(در مختار ص 398 ج 2)
کیا ہی فراخ دلی کا مظاہرہ ہے۔
(اوادخل ذكره في بهيمة اوميته )
یعنی اگر کوئی شخص چوپائے جانور (گائے، بھینس، بکری) کے ساتھ براکام کرے تو روزہ فاسد نہیں ہو تا۔ اسی طرح اگر میت (مردے) کے ساتھ بد فعلی کرے تو روزہ نہیں بگڑتا۔
(در مختارص 399 ج 2)
کیسے مہذب معاشرے کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔
مولوی قطب الدین حنفی در مختار سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اور اگر منزل (انزال) نہ ہو تو روزہ نہیں ٹو ٹتا ( جانور سے وطی کرنے سے ) بلا خلاف۔
( مظاہر حق ص 158 ج 2)
(يباح اسقاط الولد قبل اربعة شهر)
یعنی چار مہینے سے پہلے حمل کو گرادینا مباح (جائز) ہے۔
(در مختار)
کنڈوم سسٹم رائج کرنے والوں نے شائد یہاں سے ہی راہنمائی لی ہو ۔
(و مواضع تربصة عشرون )
یعنی بیسں صورتوں میں مرد کو بھی (عورت کی طرح) عدت گزارنی پڑیگی۔
(در مختار مع شامی ص 503 ج 3)
پندرھویں صدی کے مقلد و! ذر ابتلاؤ تو سہی کہ مرد کو بھی حیض آتا ہے۔ جس سے اس کی عدت کا اندازہ ہو گا یا مرد کو حمل ہو جاتا ہے۔ جو عدت کا کہہ رہے ہو۔
(اوزني في دار الحرب او البغى)
یعنی حربی کافروں یا باغیوں کی سلطنت میں زنا کرنے سے بھی حد نہیں۔
(در مختار مع رد الحتار ص 28 ج 4)
(ولا حد بالزنا غير مكلف بمكلفة مطلقا )
یعنی اگر نا بالغ وغیرہ غیر مکلف مرد اگر کسی مکلفہ بالغہ عورت سے زنا کرے تو دونوں پر حد نہیں۔
(در مختار مع رد المختار ص 29 ج 4)
زنا کی اجازت کا کتنا عمدہ حیلہ ہے۔

تلک عشرة کاملتہ :-

یہ دس مسائل ہم نے در مختار سے منتخب کر کے تحریر کر دیئے ہیں۔ اگر جھنگوی صاحب میں ہمت ہے تو ان مسائل کو خطبہ جمعہ میں پڑھ کر لوگوں کو سنادیں کہ ہماری فقہ کے یہ معتبر مسائل ہیں کہ ہر حنفی پہ لازم ہے کہ وہ ان پر عمل کرے۔ کیونکہ یہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر لکھیں گئے ہیں جو ان پر عمل نہیں کرے وہ مدینہ کی کتاب کا منکر ہوگا۔ مگر یقین جانئے کہ جھنگوی مرنا تو قبول کرلے گا مگر ان مسائل کو علی الاعلان بیان نہیں کرے گا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ مدینہ میں بیٹھ کر کوک شاستر لکھی گئی ہے۔ اسلام کی خدمت نہیں کی گئی بلکہ اسلامی تعلیم کو مسح کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل