کیا اہل حدیث عذاب قبر کے منکر ہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت قبر میں عذاب و ثواب کے قائل ہیں جبکہ موجودہ غیر مقلد اہل حدیث اس کے قائل نہیں ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولا:-
میں حیران ہوں کہ اس کا جواب لکھوں تو کیا لکھوں؟ آخر جھنگوی نے کونسے دلائل دیئے ہیں۔ جن کو میں توڑوں ؟ جب سارے معاملے کی بنیاد ہی بد ظنی سے دو ہاتھ آگے کذب و افترا اور غلط بیانی پر ہے تو اس کے جواب میں صرف لعنت الله علی الكاذبين ہى کافی تھا۔ عذاب قبر کے ثبوت پر متعدد آیات قرآن اور متواتر احادیث ہیں ۔ بھلا کوئی اہل حدیث اس کا کب انکار کر سکتا ہے ؟ جھنگوی صاحب پر واضح ہو کہ عذاب قبر کا منکر خبیث العقیدہ‘ بد بخت بدترین بدعتی اور اہل سنت سے خارج ہے ۔ جب تک اس خبیث عقیدہ سے تو یہ نہ کرے اس سے کوئی معاملہ بحیثیت مسلمان کرنا جائز نہیں۔ اور اگر مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھناہ جائز نہیں۔
ثانیاً:-
جھنگوی کی تحریر گواہ ہے کہ وہ صرف موجودہ علماء اہل حدیث کے متعلق یہ عقیدہ بتاتا ہے۔ گذشتہ فوت شدہ جملہ اہل حدیث علماء کے بارے ایسے اعتراف ہے کہ وہ عذاب قبر کے قائل تھے ۔ اس لیے ہمیں جملہ محد ثین کرام سے اس کے بارے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ رہے موجودہ دور کے علماء اہل حدیث تو اس سلسلہ میں پہلی بات تو ہم قارئین کرام کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
وہ کسی بھی مقامی اہل حدیث کے اہل علم سے پوچھ کر تسلی کر سکتے ہیں۔ جھنگوی صاحب ہمارے استاذی المکرم حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب گوندلوی حفظہ اللہ کی تالیف ’’عقیدہ اہل حدیث ص 341 کا مطالعہ کر لیں۔ ان شاء اللہ ان کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ ہاں البتہ ضد لاعلاج مرض ہے اس کے لیے جھنگوی صاحب کم از کم دس بار على الصبح لاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم‘ كا وظیفہ کیا کریں۔ ان شاء اللہ اس اکسیری نسخہ سے شفا ہو گی۔
اگر کوئی کسر رہ گئی تو جھنگوی صاحب اذا حدث کذب ( منافق جب بات کرتا ہے تو غلط بیانی کرتا ہے) کو بھی دن میں ایک آدھا بار یاد کر لیا کریں۔ اس سے ان شاء اللہ ضرور شفا ہوگی۔