عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے….: پھر آپ نے ایک چلو پانی لے کر اسے بہایا (پھر) سر اور کانوں کا مسح کیا….الخ، ابن عباسؓ نے اسے نبی ﷺ سے (مرفوعاً) بیان کیا ہے۔
(سنن ابی داؤد: ۲۰/۱ المجتبائیہ :ح ۱۳۷ حدیث)
اس کی سند حسن ہے ، اسے امام حاکم نے بھی مستدرک (۱۴۷/۱) میں روایت کیا ہے علاوہ ازیں کتب احادیث میں اس کے متعدد شواہد ہیں۔
فوائد:
۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سر کے ساتھ کانوں کا مسح بھی کرنا چاہیے۔
۲: صحیح و حسن احادیث میں سر اور کانوں کے مسح کا ذکر ہے لیکن گردن کے مسح کا ذکر نہیں۔
۳: التلخیص الحبیر (ج۱ ص ۹۳ ح ۹۸) میں ابو الحسین ابن فارس کے جزء سے بلا سند عن فلیح بن سلیمان عن نافع عن ابن عمر منقول ہے کہ:”أنّ النبي ﷺ قال: من توضأ و مسح بیدیہ علی عنقہ، وقي الغل یوم القیامۃ“ جس نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا روزِ قیامت گردن میں طوق پہنائے جانے سے بچ جائے گااس روایت کو اگرچہ ابن فارس نے :”ھذا ان شاء اللہ حدیث صحیح” کہا ہے ، مگر حافظ ابن حجرؒ نے تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :”بین ابن فارس و فلیح مفازۃ، فینظر فیھا”
ابن فارس اور فلیح کے درمیان وہ بیابان ہے جس میں پانی نہیں ہے ، پس اس کی ابن فارس سے فلیح تک سند دیکھنی چاہئے (یعنی یہ روایت بلا سند ہے چونکہ دین کا دارومدار اسانید پر ہے لہذا یہ بے سند روایت سخت مردود ہے)
۴: "چالیس حدیثیں” کے مصنف محمد الیاس صاحب نے یہ جھوٹ لکھا ہے کہ "حافظ ابن حجرؒ نے التلخیص الحبیر میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے "۔
۵: محمد الیاس تقلیدی صاحب نے یہ بھی جھوٹ لکھا ہے کہ "علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں بھی ایسا ہی (یعنی اسے صحیح) لکھا ہے ” (چالیس حدیثیں ص ۶) حالانکہ نیل الاوطار میں اس پر جرح موجود ہے (ج۱ ص ۱۶۴ طبع بیروت لبنان)
۶: نبی ﷺ نے عمامہ پر مسح کیا ہے (صحیح البخاری ج ۱ ص ۳۳ ح ۲۰۵) اس کے برعکس ہدایہ (ج۱ ص ۴۴) میں لکھا ہوا ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے (إنا للہ و إنا إلیہ راجعون) ہدایہ کا یہ فتویٰ صحیح بخاری کی حدیثِ رسولﷺ کے مقابلہ میں مردود ہے۔