وَرَوَى مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي حُحَيْفَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيِّ مَا بِمَكَّةَ وَهُوَ بالأبطح فِي قُبَّةٍ لَهُ حَمَرَاءَ مِنْ أَدَمٍ وَفِيهِ: ((فَتَوَضَّاً، وَأَذَّنَ بِلَالٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ اهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا؛ يَقُولُ يَمِينًا وَشِمَالًا يَقُولُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ))
مسلم نے ابوجحیفہ کے حوالے سے حدیث بیان کئی کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ معظمہ میں پہنچا آپ ابطح مقام پر سرخ رنگ کے چھڑے کے بنے ہوئے خیمے میں تشریف فرما تھے، اس حدیث میں اس بات کا ذکر تھا ۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ، بلال نے آذان دی، راوی کہتا ہے کہ میں نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر لگا دیں وہ اذان کے دوران اپنا چہرہ کبھی ادھر کرتے اور کبھی ادھر یعنی وہ حي على الصلواة کے الفاظ کہتے ہوئے اپنا چہرہ دائیں طرف کرتے اور حي على الفلاح کہتے ہوئے اپنا چہرہ بائیں طرف کرتے ۔
تحقيق و تخریج :
البخاری : 634 مسلم : 503
وَفِي رِوَايَةِ التَّرْمَذِي: رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ، وَيَتَّبِعُ فَاهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَأَصْبَعَاهُ فى أذنيه
وَقَالَ: حَدِيثُ أَبِي حُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. صحيح.
ترمذی کی روایت میں ہے ”میں نے بلال کو اذان دیتے ہوئے دیکھا کہ وہ گھومتے ہیں ، اور اپنا چہرہ ادھر ادھر کرتے ہیں اور اس نے اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں دے رکھی ہیں “۔ امام ترمذی نے کہا کہ ابوجحفہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل : 308/4 ترمذی 197 ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ مستدرك حاكم : 1/ 202 الارواء : 1/ 249 البخاری : 634 مسلم : 249
فوائد :
➊ اذان قبلہ رخ کہنی مسنون ہے ۔ اذان میں حي على الصلوة، حي على الفلاح کے وقت چہرے کو دائیں بائیں موڑنا چاہیے چہرہ اتنا مڑے کہ وہ اپنی حد میں ہی رہے آگے تجاوز نہ کرے اذان کھڑے ہو کر کہنی چاہیے ۔ بیٹھ کر اذان دینا غیر مشروع ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو ۔ اذان دیتے وقت چہرے کے ساتھ جسم کو موڑنا دائیں یا بائیں طرف درست نہیں ہے ۔
➋ اذان کے وقت کسی مؤذن کے انداز اور الفاظ پر توجہ کرنا اور دیکھنا صحیح ہے مؤذن کے پاس کوئی کھڑا ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں شرط یہ ہے کہ شوروغل نہ کرے ۔
➌ چھڑے کو رنگ کر اس کو ہر طرح کے استعمال میں لاناجائز ہے اور اس پر ہر طرح کا رنگ لگانا بھی درست ہے جیسے اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ سرخ رنگ کا تھا اور چمڑے کا تھا ۔
➍ شہروں کے علاوہ نواحی دیہاتوں یا ڈیروں پر اذان کہی جا سکتی ہے ۔ حتی کہ جہاں نماز باجماعت کا اہتمام کرنا ہو تو اذان کہہ کر جماعت کروائی جا سکتی ہے ۔ اذان دیتے وقت دونوں کانوں میں شہادت کی انگلیاں ڈالناجائز ہے ۔ قبلہ رخ کھڑے ہو کر کانوں میں انگلی ڈال کر اذان دینے کے کئی فوائد ہیں دیکھنے والے کو پتہ چل جاتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے آواز سے نمازی حضرات نماز کی طرف آجاتے ہیں اور کانوں میں انگلی رکھنے سے بہرے حضرات دیکھ کر وقت نماز کا اندازہ لگا سکتے ہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سنت پر عمل ہوتا ہے ۔
➎ کسی بات یا کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کرنے والے یا کام کرنے والے کی طرف نہایت انہاکی سے دیکھا جائے یا اس کو سنا جائے ۔
مسلم نے ابوجحیفہ کے حوالے سے حدیث بیان کئی کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ معظمہ میں پہنچا آپ ابطح مقام پر سرخ رنگ کے چھڑے کے بنے ہوئے خیمے میں تشریف فرما تھے، اس حدیث میں اس بات کا ذکر تھا ۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ، بلال نے آذان دی، راوی کہتا ہے کہ میں نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر لگا دیں وہ اذان کے دوران اپنا چہرہ کبھی ادھر کرتے اور کبھی ادھر یعنی وہ حي على الصلواة کے الفاظ کہتے ہوئے اپنا چہرہ دائیں طرف کرتے اور حي على الفلاح کہتے ہوئے اپنا چہرہ بائیں طرف کرتے ۔
تحقيق و تخریج :
البخاری : 634 مسلم : 503
وَفِي رِوَايَةِ التَّرْمَذِي: رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ، وَيَتَّبِعُ فَاهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَأَصْبَعَاهُ فى أذنيه
وَقَالَ: حَدِيثُ أَبِي حُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. صحيح.
ترمذی کی روایت میں ہے ”میں نے بلال کو اذان دیتے ہوئے دیکھا کہ وہ گھومتے ہیں ، اور اپنا چہرہ ادھر ادھر کرتے ہیں اور اس نے اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں دے رکھی ہیں “۔ امام ترمذی نے کہا کہ ابوجحفہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل : 308/4 ترمذی 197 ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ مستدرك حاكم : 1/ 202 الارواء : 1/ 249 البخاری : 634 مسلم : 249
فوائد :
➊ اذان قبلہ رخ کہنی مسنون ہے ۔ اذان میں حي على الصلوة، حي على الفلاح کے وقت چہرے کو دائیں بائیں موڑنا چاہیے چہرہ اتنا مڑے کہ وہ اپنی حد میں ہی رہے آگے تجاوز نہ کرے اذان کھڑے ہو کر کہنی چاہیے ۔ بیٹھ کر اذان دینا غیر مشروع ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو ۔ اذان دیتے وقت چہرے کے ساتھ جسم کو موڑنا دائیں یا بائیں طرف درست نہیں ہے ۔
➋ اذان کے وقت کسی مؤذن کے انداز اور الفاظ پر توجہ کرنا اور دیکھنا صحیح ہے مؤذن کے پاس کوئی کھڑا ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں شرط یہ ہے کہ شوروغل نہ کرے ۔
➌ چھڑے کو رنگ کر اس کو ہر طرح کے استعمال میں لاناجائز ہے اور اس پر ہر طرح کا رنگ لگانا بھی درست ہے جیسے اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ سرخ رنگ کا تھا اور چمڑے کا تھا ۔
➍ شہروں کے علاوہ نواحی دیہاتوں یا ڈیروں پر اذان کہی جا سکتی ہے ۔ حتی کہ جہاں نماز باجماعت کا اہتمام کرنا ہو تو اذان کہہ کر جماعت کروائی جا سکتی ہے ۔ اذان دیتے وقت دونوں کانوں میں شہادت کی انگلیاں ڈالناجائز ہے ۔ قبلہ رخ کھڑے ہو کر کانوں میں انگلی ڈال کر اذان دینے کے کئی فوائد ہیں دیکھنے والے کو پتہ چل جاتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے آواز سے نمازی حضرات نماز کی طرف آجاتے ہیں اور کانوں میں انگلی رکھنے سے بہرے حضرات دیکھ کر وقت نماز کا اندازہ لگا سکتے ہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سنت پر عمل ہوتا ہے ۔
➎ کسی بات یا کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کرنے والے یا کام کرنے والے کی طرف نہایت انہاکی سے دیکھا جائے یا اس کو سنا جائے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]