بچے کی پرورش میں حق دار کا شرعی تعین
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

پرورش کرنے کا زیادہ حق دار

سوال: جو اپنے پرورش کرنے والے کو کھو بیٹھے تو کیا اس پرورش کرنے کا ولی وہ بن سکتا ہے جو مطلقا ولی بنا ہو؟
جواب: جب پرورش کا مستحق کھو دیا جائے یا اس کے لیے پرورش کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو پھر پرورش کرنے کے ذمے داران میں سے جو مرتبے میں اس کے بعد آتا ہو وہ یہ ذمے داری سنبھالے اور جو کام وہ کرتا رہا یہ بھی وہ کام کر لے، فقہا نے اس کی تصریح کی ہے۔
”شرح کبیر“ میں ہے:
”اگر باپ یا کوئی دوسرا پرورش کرنے والا معدوم ہو جائے اور کوئی عصبہ موجود ہو، جیسے: بھائی، چچا، چچا زاد تو وہ باپ کے قائم مقام ہوگا، پھر حاکم وقت اس کو، اس عصبہ اور ماں کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دے گا، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمارہ خرمی کو اختیار دیا تھا کہ چچا اور ماں میں سے کسی ایک کو منتخب کر لے، کیونکہ اس کا چچا اس کا عصبہ تھا، لہٰذا وہ باپ کے مشابہ ہوا۔ اسی طرح اگر ماں یا کوئی دوسرا اہل حضانت (پرورش کرنے والے) میں سے غیر موجود ہو اور دادی نے اس کی پرورش کی ہو تو لڑکے کو اختیار دیا جائے گا کہ اس کو اختیار کرے یا باپ کو یا عصبات میں جو اس کے قائم مقام ہو۔ اگر ماں باپ دونوں ہی نہ ہوں یا اہل حضانت میں کوئی بھی نہ ہو تو پھر اس کو اس کی بہن، پھوپھی یا خالہ کے سپرد کر دیا جائے، تو وہ کسی ایک کو منتخب کرنے میں اس کی ماں کے قائم مقام ہو گی جس طرح ذکر ہوا ہے کہ اگر باپ یا اہل حضانت میں سے کوئی نہ ہو اور کوئی عصبہ موجود ہو تو حاکم عصبہ اور ماں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حکم دے گا۔“
شرح ”الاقناع“ اور ”منتہی“ میں بھی وہی مذکور ہے، جو ”شرح کبیر“ میں ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 319/22]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل