دین میں حیا نہیں

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

متفرق فتوے
سوال : بہ قول : ”لا حیاء فی الدین“ (دین میں حیا نہیں ہے ) کہاں تک صحیح ہے ؟
جواب : اگر مذکورہ قول کو صحیح بھی مان لیا جائے تو ہم اس طرح کے قول کی دلیل ایک مسنون کلمہ میں پاتے ہیں جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے :
رحم الله نساء الأنصار ، لم يمنعهن حياؤهن أن يتفقهن فى الدين [حسن سنن ابن ماجه رقم الحديث 642 ]
” اللہ تعالیٰ انصار کی عورتوں پر رحم فرمائے ، ان کی حیا ان کو دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے نہیں روکتی ۔ “
لیکن مذکورہ قول ”دین میں حیانہیں ہے“ ۔ قید کا محتاج ہے (کہ کس معاملے میں حیا دین کا حصہ نہیں) کیونکہ مسنون اقوال ایک دوسرے کی تفسیر کرتے ہیں ، تو ہم کہتے ہیں : جب یہ کلمہ کسی علمی بحث کی مناسبت سے یعنی سوال جواب کے دوران کہا جائے ، یا دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی مناسبت سے بولا جائے یا کسی اور مناسب مقام پر بولا جائے تو صحیح ہے ۔
لیکن جب بغیر قید کے ”لا حیاء فی الدین “ کہا جائے تو صحیح نہیں ہے ، تو کیونکہ ”الحیاء من الإیمان“ [صحيح البخاري ، رقم الحديث 24 صحيح مسلم ، رقم الحديث 36 ]
( حیا ایمان کا حصہ ہے ) جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء