اقامت کا جواب
اقامت کا جواب دینا مشروع ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
[بخارى 611 ، كتاب الاذان : باب ما يقول إذا سمع المنادى ، مسلم 383]
”جب تم نداء سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔“
اس حدیث میں لفظ ”نداء“ اذان و اقامت دونوں کو شامل ہے اور مثل ما يقول المؤذن سے معلوم ہوتا ہے کہ قد قامت الصلاة کے جواب میں بھی یہی الفاظ دہرائے جائیں گے۔ نیز جس حدیث میں قد قامت الصلاة کے جواب میں اقامها الله وأدامها کہنے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے اس میں ہے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہتے ہوئے قد قامت الصلاة کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آقامها الله وأدامها کہا۔
[ضعيف : ضعيف أبو داود 104 ، إرواء الغليل 241 ، أبو داود 528 ، كتاب الصلاة : باب ما يقول إذا سمع الإقامة ، بيهقى 411/1 ، الحلية لأبي نعيم 81/7 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے ضعيف كہا هے ، تلخيص الحبير 378/1 ، اس كي سند ميں شهر بن حوشب راوي متكلم فيه هے۔ ميزان الاعتدال 283/2 ، تهذيب التهذيب 369/4 ، اس كي سند ميں ايك اور راوي رجل من اهل الشام مجهول هے اور محمد بن ثابت العبدي بهي ضعيف هے۔ ميزان الاعتدال 495/3 ، تهذيب التهذيب 85/9]
(شیخ ابن جبرينؒ) أقامها الله وأدامها والی حدیث ضعیف ہے ۔
[الفتاوى الإسلاميه 327/1]
کیا اقامت کے بعد بھی وہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو اذان کے بعد پڑھی جاتی ہیں
اس کے جواب میں سعودی مجلس افتاء نے یہ کہا ہے کہ :
ولا نعلم دليلا يصح يدل على ذكر شيء من الأدعية بين انتهاء الإقامة وقبل تكبيرة الإحرام
”ہمیں کسی ایسی صحیح دلیل کا علم نہیں ہے کہ جوا قامت کے اختتام اور تکبیر تحریمہ کی ابتداء کے درمیان کسی دعا کے پڑھنے پر دلالت کرتی ہو۔“
[الفتاوى الإسلامية 325/1]
اقامت کے بعد کلام
( ابن بازؒ) اگر تو کلام نماز کے متعلق ہو مثلا صفوں کی درستگی وغیرہ تو مشروع ہے اور اگر نماز کے متعلق نہ ہو تو نماز کی تنظیم کے لیے اسے ترک کر دینا چاہیے۔
[الفتاوى الإسلامية 328/1]