سوال:
اصحاب الفرائض کے حصوں کی تفصیل تحریر کریں؟
جواب:
1. خاوند (Husband): اس کی دو حالتیں ہیں:
➊ جب فوت شدہ بیوی کی کوئی فرع وارث نہ ہو تو خاوند کو ترکہ میں سے نصف 1/2 ملے گا۔
اولاد اور نرینہ اولاد کی اولاد ” فرع“ کہلاتی ہے مثلا بیٹا پوتا پڑپوتا بیٹی پوتی پڑ پوتی.
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ
(سورۃ النساء 4:12)
اگر تمہاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لیے نصف ہے۔
➋ جب بیوی کی کوئی فرع وارث ہو، خواہ اسی خاوند سے ہو یا کسی پہلے خاوند سے، تو خاوند کو ترکہ میں سے چوتھائی حصہ 1/4 ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ
(سورۃ النساء 4:12)
اگر بیویوں کی اولاد ہو تو تمہارے لیے ترکہ میں سے چوتھا حصہ ہے۔
2. باپ (Father): اس کی تین حالتیں ہیں:
➊ جب میت کی مذکر فرع وارث ہو، جیسے بیٹا، پوتا وغیرہ، تو باپ کو ترکہ میں سے چھٹا حصہ1/6 ملے گا۔
➋ جب میت کی مونث فرع وارث ہو، جیسے بیٹی، پوتی وغیرہ، تو باپ چھٹے حصے کے ساتھ عصبہ بھی بنے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر میت کی اولاد ہو تو والدین میں سے ہر ایک کے لیے ترکہ میں سے چھٹا حصہ ہوگا۔
➌ جب میت کی کوئی فرع وارث نہ ہو تو باپ بطور عصبہ وارث بنے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث والدین ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ ملے گا۔
باقی دو تہائی2/3 بطور عصبہ باپ کا ہوگا۔
3. دادا (Grandfather):
باپ کی عدم موجودگی میں دادا وارث بنتا ہے اور باپ کی مذکورہ تینوں حالتیں دادا پر جاری ہوں گی۔
4. مادری بہن و بھائی (Maternal Sister/Brother): مادری بہن اور بھائی وراثت میں برابر ہوتے ہیں اور ان کی تین حالتیں ہیں:
➊ اگر ایک ہو تو اس کے لیے چھٹا1/6 حصہ ہوگا۔
➋ اگر زیادہ ہوں تو ان کے لیے ایک تہائی1/3 کا حصہ ہوگا۔
➌ اگر میت کی فرع وارث یا باپ/دادا موجود ہوں تو یہ ترکہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ
(سورۃ النساء 4:12)
ترجمہ: اگر کوئی میت مرد یا عورت کلالہ ہو (جس کا اصل یا فرع میں سے کوئی نہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ 1/6 ملے گا۔ اگر ایک سے زیادہ ہوں تو وہ تیسرے حصے میں شریک ہوں گے۔
نوٹ:
مادری بہن بھائی کو اصطلاح میں ”أخيافي“ بہن بھائی کہا جاتا ہے۔ یہ (مذکر اور مونث) وراثت کے استحقاق اور آپس کی تقسیم میں برابر ہوتے ہیں۔ نیز ماں کی موجودگی میں بھی وارث بنتے ہیں، جبکہ دیگر ورثاء اس وارث کی موجودگی میں اکثر محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ میت کے رشتہ دار بنتے ہیں۔
5. بیوی (Wife): اس کی دو حالتیں ہیں:
➊ جب فوت شدہ خاوند کی کوئی فرع وارث نہ ہو تو بیوی کو ترکہ میں سے چوتھا حصہ 1/4 ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ
(سورۃ النساء 4:12)
اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو ان (بیویوں) کے لیے تمہارے ترکہ میں سے چوتھا حصہ ہے۔
➋ جب خاوند کی فرع وارث ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ1/8 ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ
(سورۃ النساء 4:12)
اگر تمہاری اولاد ہو تو ان (بیویوں) کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے۔
نوٹ:
اگر بیوی اکیلی ہو تو تنہا چوتھا یا آٹھواں حصہ لے گی، اگر زیادہ ہوں تو یہی حصہ آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی۔ رجعی طلاق کی عدت میں بھی عورت وارث ہوگی۔
6. ماں (Mother): اس کی تین حالتیں ہیں:
➊ جب فوت شدہ بیٹے کی کوئی فرع وارث ہو یا ایک سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو ماں کو ترکہ میں سے چھٹا حصہ1/6 ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر میت کی اولاد ہو تو والدین میں سے ہر ایک کے لیے ترکہ میں چھٹا حصہ ہے۔
فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو ماں کے لیے چھٹا حصہ 1/6ہے۔
➋ جب مذکورہ وارث (اولاد یا ایک سے زیادہ بہن بھائی) نہ ہوں تو ماں کو کل ترکہ کا ایک تہائی 1/3ملے گا۔
➌ جب میت کے والدین کے ساتھ خاوند یا بیوی میں سے کوئی ہو تو ماں کو باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ 1/3ملے گا۔
باقی ماندہ سے مراد خاوند یا بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد بچنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اسے مسئلہ عمريتين کہتے ہیں کیونکہ اس کا فیصلہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ① خاوند، ماں اور باپ ② بیوی، ماں اور باپ
7. دادی و نانی (صحیحہ) (Grandmother): دادی اور نانی کو ترکہ میں چھٹا حصہ ملے گا جب میت کی ماں موجود نہ ہو۔ باپ کی موجودگی میں دادی محروم ہو جاتی ہے، البتہ نانی وارث بنتی ہے۔
نوٹ:
میت کی دادی اور نانی دونوں ہوں تو چھٹا حصہ 1/6آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی۔ اگر ایک ہو تو تنہا چھٹے حصے1/6 کی وارث بنے گی۔
قریبی کی موجودگی میں بعیدی محروم ہو جاتی ہے، مثلاً دادی کی موجودگی میں پڑدادی اور نانی کی موجودگی میں پڑنانی محروم ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس میت کی جدہ (نانی) آئی اور اپنی میراث کا سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا:
تیرا حصہ کتاب اللہ میں (بیان) نہیں ہے اور اس کے بارے میں مجھے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی معلوم نہیں، اس لیے واپس چلی جاؤ۔ میں لوگوں سے (اس بارے میں) سوال کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے دریافت کیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدہ (نانی) کو چھٹا حصہ دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تیرے ساتھ اور کون تھا؟ تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اسی طرح کہا جو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے یہی حکم جاری کر دیا۔ پھر دوسری جدہ (دادی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس (ان کے دور خلافت میں) آئی اور اپنی وراثت کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے فرمایا: کتاب اللہ میں تیرا کوئی حصہ (بیان) نہیں، البتہ وہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم دونوں (دادی اور نانی) ہو تو یہ چھٹا حصہ تمہارے درمیان مشترک ہوگا، اگر کوئی اکیلی ہو تو صرف اس کے لیے ہوگا۔
(جامع الترمذی، کتاب الفرائض، باب میراث الجدة، حدیث: 2101، وقال: هذا حدیث حسن صحیح؛ سنن ابی داود، کتاب الفرائض، حدیث: 2894)
قاضی حسین رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والی میت کی نانی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والی دادی تھی۔ ابن ماجہ کی ایک روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ (تحفة الأحوذي: 6/229)
8. بیٹی (Daughter): اس کی تین حالتیں ہیں:
➊ جب میت کی اولاد میں صرف ایک بیٹی ہو تو اسے آدھا حصہ ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر بیٹی اکیلی ہو تو اسے آدھا حصہ ملے گا۔
➋ جب ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو دو تہائی حصہ لیں گی۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ
(سورۃ النساء 4:11)
اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہوگا۔
➌ جب لڑکے اور لڑکیاں دونوں قسم کی اولاد ہو تو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ بطور عصبہ ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
(سورۃ النساء 4:11)
اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر کے لیے مونث کی بہ نسبت دو حصے ہیں۔
9. پوتی (Granddaughter): اس کی پانچ حالتیں ہیں:
➊ جب میت کی اولاد میں سے صرف ایک پوتی ہو تو اسے ترکہ میں سے آدھا حصہ ملے گا۔
➋ جب ایک سے زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا۔
➌ جب ایک یا زیادہ پوتیوں کے ساتھ ایک بیٹی بھی ہو تو انہیں چھٹا حصہ ملے گا اور بیٹی کو اس صورت میں نصف ملے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قضى النبى صلى الله عليه وسلم للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وللأخت ما بقي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف، پوتی کے لیے چھٹا حصہ دو تہائی کی تکمیل کے لیے، اور باقی ماندہ بہن کے لیے ہوگا۔
(صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابنة ابن مع ابنة، حدیث: 6736؛ سنن ابی داود، کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث الصلب، حدیث: 2890)
➍ جب ان کے ساتھ ان کا بھائی ہو تو یہ بطور عصبہ وارث ہوں گی اور للذكر مثل حظ الأنثيين کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گی۔
➎ جب میت کا بیٹا یا ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو یہ محروم ہو جاتی ہیں۔
10. حقیقی بہن (Sister): اس کی پانچ حالتیں ہیں:
➊ جب میت کی صرف ایک بہن ہو تو اسے ترکہ میں سے آدھا حصہ ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ
(سورۃ النساء 4:176)
وہ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) سوال کرتے ہیں۔ آپ فرمائیے: اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ اگر کوئی مرد بغیر اولاد کے فوت ہو جائے اور اس کی (حقیقی یا پدری) بہن ہو تو اسے نصف ملے گا۔
➋ جب ایک سے زیادہ ہوں تو ان کو دو تہائی 2/3ملے گا۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ
(سورۃ النساء 4:176)
اگر بہنیں دو (یا دو سے زیادہ) ہوں تو ان کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی ہے۔
➌ جب ان کے ساتھ ان کا بھائی ہو تو ان کو بطور عصبہ حصہ ملے گا اور للذكر مثل حظ الأنثيين کے مطابق آپس میں تقسیم کریں گی۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
(سورۃ النساء 4:176)
اگر بھائی مذکر اور مونث (دونوں قسم کے) ہوں تو مذکر کے لیے مونث کی بہ نسبت دو حصے ہوں گے۔
➍ جب میت کی مونث فرع وارث ہوں تو یہ بطور عصبہ وارث ہوں گی۔
➎ جب میت کی مذکر فرع وارث ہوں یا باپ موجود ہو تو یہ محروم ہو جاتی ہیں۔
11. پدری بہن (Paternal Sister): اس کی چھ حالتیں ہیں:
➊ جب میت کی صرف ایک پدری بہن ہو اور حقیقی بہن نہ ہو تو اسے ترکہ میں سے آدھا حصہ ملے گا۔
➋ جب یہ ایک سے زیادہ ہوں اور حقیقی بہن نہ ہو تو دو تہائی لیں گی۔
➌ ایک حقیقی بہن کی موجودگی میں چھٹا حصہ کی وارث بنے گی تاکہ دو تہائی مکمل ہو جائے۔
➍ جب ان کے ساتھ ان کا بھائی یا میت کی مونث فرع وارث ہو تو یہ بطور عصبہ وارث ہوں گی۔
➎ جب میت کی مذکر فرع، باپ یا حقیقی بھائی وارث ہو تو یہ محروم ہو جاتی ہیں۔
➏ دو حقیقی بہنوں کی موجودگی میں بھی یہ محروم ہو جاتی ہیں، الا یہ کہ ان کے ساتھ پدری بھائی ہو، اس وقت بطور عصبہ وارث ہوں گی۔
نوٹ:
مادری بہنوں کی وراثت کا ذکر مادری بھائیوں کے ساتھ ص12 پر گزر چکا ہے۔