بیوہ کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بیوہ کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [البقرة: 234]
”تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔“
واضح رہے کہ یہ اس وقت ہے جب بیوہ عورت حاملہ نہ ہو۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [الطلاق: 4]
”حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔“
➋ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ) شہید کر دیے گئے تو وہ اس وقت حاملہ تھیں:
فوضعت بعد موته أربعين ليلة فخطبت
”شوہر کی وفات کے چالیس روز بعد ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا۔“
فانكحها رسول الله
”تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان کا نکاح کرا دیا ۔“
[بخارى: 4909 ، كتاب التفسير: باب: وأولات الأحمال أجلعهن أن يضعن حملهن ، مسلم: 1485 ، ترمذي: 1194 ، مؤطا: 590/2 ، نسائي: 191/6 ، أحمد: 423/6]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسی عورت کے متعلق دریافت کیا گیا جس کا شوہر انتقال کر جائے اور وہ حاملہ ہو تو انہوں نے کہا ”تم لوگ اس (یعنی حاملہ) پر سختی کے متعلق کیوں سوچتے ہو اور اسے رخصت نہیں دیتے (یعنی اسے لمبی عدت کا حکم دیتے ہو) حالانکہ چھوٹی سورۂ نساء (یعنی سورۃ طلاق ) لمبی سورۂ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے (یعنی یہ حکم بعد میں آیا ہے کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے لٰہذا اسی پر عمل کرو) ۔“
[بخاري: 4532 ، كتاب التفسير: باب قوله: والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا]
➍ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیوی کو پیغام نکاح دینے کا حکم دیا جس نے طلاق کے چند لمحات بعد ہی بچہ جن دیا تھا۔
[صحيح: إرواء الغليل: 2117 ، ابن ماجة: 2026]
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ ایسی عورت جس کا شوہر فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(علی رضی اللہ عنہ ) ایسی عورت کی عدت أبعد الاً جلین ہے (یعنی دونوں میں سے بعد والی ، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ایسی عورت کو چار ماہ دس دن سے پہلے وضع حمل ہو جائے تو وہ چار ماہ دس دن پورے کرے گی اور اگر چار ماہ دس دن ہو جائیں لیکن وضع حمل نہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہو گی۔ یہ موقف اختیار کرنے کا سبب یہ ہے کہ دونوں آیات پر عمل ہو جائے حالانکہ گذشتہ تمام دلائل اس موقف کے خلاف ہیں لٰہذا جمہور کا موقف ہی راجح ہے اور اسی پر عمل کیا جائے گا ) ۔
[نيل الأوطار: 388/4]
(ابن قیمؒ) سلف کے درمیان پہلے تو متوفی عنھا زوجھا (کی عدت) کے متعلق اختلاف تھا….. لیکن بعد میں اتفاق ہو گیا کہ اس کی عدت وضع حمل ہی ہے ۔
[أعلام الموقعين: 86/2]
(ابن حزمؒ) اسی کے قائل ہیں حتی کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر وفات کے فورا بعد وضع حمل ہو جائے تو عورت اگر چاہے تو اسی وقت نکاح کر سکتی ہے۔
[المحلى بالآثار: 41/10]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) فرماتے ہیں کہ یہی بات برحق ہے۔
[تحفة الأحوذى: 420/4]
(ترمذیؒ) انہوں نے جمہور کے قول کو ہی زیادہ درست قرار دیا ہے۔
[ترمذي: بعد الحديث/ 1193 ، كتاب الطلاق واللعان: باب ما جاء فى الحامل المتوفى عنها زوجها تصنع]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[الروضة الندية: 145/2]
◈ واضح رہے کہ یہ عدت وفات کی وجہ سے لازم ہوتی ہے قطع نظر اس بات سے کہ اس عورت سے ہم بستری ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ صرف وفات سے ہی عدت واجب ہو جائے گی جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسی عورت کے متعلق ”کہ جس کا خاوند اس سے ہم بستری سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا“ یہی فیصلہ کیا تھا کہ :
وعليها العدة
”اس پر عدت ہے۔“
پھر ایک صحابی نے اٹھ کر یہ تصدیق کر دی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا۔
[صحيح: إرواء الغليل: 1939 ، ابو داود: 2115 ، ترمذى: 1145 ، ابن ماجة: 1891 ، نسائي: 121/6]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1