اہلِ سنت والجماعت کے بڑے محدثین، فقہاء اور ائمہ نے یزید بن معاویہ کے جرائم، خاص طور پر قتلِ حسین رضی اللہ عنہ، واقعۂ حرہ اور خانۂ کعبہ پر حملہ کے بعد اس کی سخت مذمت اور بعض نے صراحت کے ساتھ لعنت کی ہے۔ ذیل میں ہم ترتیب وار اکابر علماء کے اقوال عربی متن، اردو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ پیش کر رہے ہیں:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ)
قال صالح بن أحمد بن حنبل:«قلتُ لأبي: إنَّ قومًا ينسبوننا إلى تولّي يزيد. فقال: يا بُنيَّ، وهل يتولّى يزيدَ أحدٌ يؤمن بالله؟ ولمَ لا نلعنُ مَن لعنه اللهُ في كتابه!فقلتُ: وأين لعنَ اللهُ يزيدَ في كتابه؟
فقال: في قوله تعالى:﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ…﴾فهل يكون فسادٌ أعظمُ من القتل؟»
صالح بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
میں نے اپنے والد امام احمدؒ سے عرض کیا: “کچھ لوگ ہمیں یزید کی طرف منسوب کرتے ہیں (یعنی ہم اسے اچھا سمجھتے ہیں)۔”
تو امام احمدؒ نے فرمایا:
"بیٹا! کیا کوئی اللہ پر ایمان رکھنے والا یزید سے محبت کرسکتا ہے؟ اور جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہو، ہم اس پر لعنت کیوں نہ کریں؟”
میں نے پوچھا: "قرآن میں کہاں لعنت کی ہے؟”
فرمایا: اللہ کا فرمان ہے:
﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ…﴾ (یعنی جو زمین میں فساد کرتے اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہے)
فرمایا: "کیا فسادِ فی الارض میں قتلِ حسینؓ سے بڑا کوئی جرم ہوسکتا ہے؟”
حوالہ:
النصائح الكافية لابن عقيل، ص 31
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ)
قال ابن الجوزي في كتابه "الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد”:«أجاز العلماءُ الوَرِعون لعنه.»
علامہ ابن الجوزیؒ اپنی کتاب الرد على المتعصب العنيد میں لکھتے ہیں:
"پرہیزگار اور متقی علماء نے یزید پر لعنت کو جائز قرار دیا ہے۔”
حوالہ:
الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد – ابن الجوزی، فیض القدیر، ملا علی قاری، جلد 1، صفحہ 265
قاضی ابو یعلی محمد بن الفراء الحنبلیؒ (متوفی 458ھ)
قاضی ابو یعلی نے اپنے رسالہ میں ان افراد کی فہرست بیان کی ہے جو لعنت کے مستحق ہیں، اور ان میں یزید بن معاویہ کو بھی شامل کیا ہے۔
«من توقّف في لعن يزيد فهو جاهلٌ بالحال، أو منافق، يُداهن الناس. وقد قالوا: المؤمنُ لا يَلعن، وهذا فيمن لا يستحق اللعن، أما من لعنَه اللهُ ورسولُه، ولعنَه السلفُ الصالحُ، فلِمَ لا يُلعن؟»
جو شخص یزید پر لعنت کرنے سے رکتا ہے، وہ یا تو مسئلہ سے جاہل ہے یا (نعوذباللہ) منافق ہے جو لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں: "مومن لعنت نہیں کرتا” — یہ ان کے بارے میں ہے جو لعنت کے مستحق نہ ہوں۔ مگر جس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے لعنت کی، اور جس پر سلف صالحین نے لعنت کی، اُس پر لعنت کیوں نہ کی جائے؟
حوالہ:
جزء في لعن يزيد – قاضی ابو یعلی، مخطوطات و طباعت دونوں صورتوں میں دستیاب
حافظ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ (متوفی 748ھ)
«كان ناصبيًّا فظًّا غليظًا جلفًا، يتناول المُسكر ويفعل المُنكر. افتتح دولتَه بمقتلِ الشهيد الحسين، واختتمها بواقعة الحرّة، فمَقَتَه الناسُ ولم يُبارك اللهُ في عُمُره، وخرج عليه غيرُ واحدٍ بعد الحسين.»
یزید ایک ناصبی (اہل بیت کا دشمن)، سخت دل، جاہل اور فحش گو شخص تھا۔ وہ شراب پیتا اور برے کام کرتا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کا آغاز حضرت حسینؓ کے قتل سے کیا اور اختتام مدینہ کے واقعہ حرہ پر ہوا۔ لوگ اُس سے سخت نفرت کرتے تھے اور اللہ نے اس کی عمر میں برکت نہیں دی۔ حسینؓ کے بعد کئی لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
حوالہ:
سیر أعلام النبلاء – امام ذہبی، جلد 4، ترجمہ یزید. تاریخ الاسلام – امام ذہبی، واقعۂ حرہ و کربلا
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (متوفی 911ھ)
«فكتب يزيدُ إلى واليه بالعراق عبيد الله بن زياد، يأمره بقتال الحسين… فقتل (الحسين) وجيء برأسه حتى وُضع بين يدي ابن زياد. لعن اللهُ قاتلَه وابنَ زياد معه ويزيدَ أيضًا.»
یزید نے عراق میں اپنے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ حسینؓ سے جنگ کرے… پس حسینؓ شہید کر دیے گئے اور ان کا سر ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔
اللہ لعنت کرے اُس کے قاتل پر، ابن زیاد پر اور یزید پر بھی۔
حوالہ:
تاریخ الخلفاء – امام جلال الدین سیوطی، صفحہ 243-244، مطبوعہ دار صادر، بیروت
علامہ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ (متوفی 793ھ)
«والحقُّ أنَّ رضا يزيد بقتل الحسين واستبشارَه بذلك وإهانتَه أهلَ بيت النبي ﷺ ممّا تواتر معناه، وإنْ كانت التفاصيل آحادًا، فنحن لا نتوقّف في شأنه، بل في كفره وإيمانه، لعنةُ الله عليه وعلى أعوانه وأنصاره.»
حقیقت یہ ہے کہ حسینؓ کے قتل پر یزید کی رضامندی، اس کی خوشی، اور رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کی توہین – یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کا مفہوم تواتر سے ثابت ہے، اگرچہ تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہم یزید کے معاملے میں کوئی توقف نہیں رکھتے، بلکہ ہم تو اس کے کفر اور ایمان کے بارے میں بھی شک نہیں رکھتے (یعنی وہ کفر کے قریب ہے)۔
اللہ کی لعنت ہو اُس پر، اس کے مددگاروں اور اس کے ساتھیوں پر۔
حوالہ:
شرح العقائد النسفية – علامہ تفتازانی، ص 181، مطبوعہ دار المعرفۃ
علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ (متوفی 1250ھ)
«لقد أفرط بعضُ أهل العلم – كالكَرّامية ومَن وافقهم – في الجمود على أحاديث الباب، حتى حكموا بأن الحسين (رضي الله عنه) باغٍ على الخميرِ السكّيرِ الهاتكِ لحُرمة الشريعة يزيد بن معاوية، لعنهم الله! فيا للعجب من مقالاتٍ تُقشَعِرُّ منها الجلود…»
بعض اہلِ علم – جیسے کرّامیّہ اور ان کے موافقین – نے اس باب کی احادیث پر ایسی شدت اختیار کی کہ (نعوذباللہ) حضرت حسینؓ کو باغی قرار دے دیا اور اُس خبیث، شرابی، اور شریعت کی حرمت پامال کرنے والے یزید بن معاویہ کو حق پر مانا۔
اللہ ان پر لعنت کرے!
افسوس! ایسی باتیں سن کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں…
حوالہ:
نیل الأوطار – امام شوکانی، جلد 7، صفحہ 362، مطبوعہ دار الجیل، بیروت
علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 1270ھ)
«اتّفق الأجِلّاءُ على جواز لعنه، لأفعاله القبيحة وتطاوله على العترة الطاهرة.»
بزرگ اور جلیل القدر علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ یزید پر لعنت کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے افعال نہایت قبیح تھے، اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ اہلِ بیت کے ساتھ زیادتی کی۔
حوالہ:
صبّ العذاب على من سبّ الأصحاب – علامہ آلوسی، صفحہ 453, تفسیر روح المعانی، سورۃ محمد آیت 22
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (1347ھ – 1421ھ)
قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله:
«يزيد بن معاوية ليس من الصحابة، وقد حصل في زمنه أشياء منكرة عظيمة، ومنها قتل الحسين رضي الله عنه، وأهل السنة اختلفوا في أمره: فمنهم من لعنَه، ومنهم من فسّقَه، ومنهم من توقّف، والصحيح أنه كان فاسقًا ظالمًا، ولا يُحب، ولا يُترضى عنه، ولا يُدعى له، بل يُدعى عليه إن ثبت أنه أمر بقتل الحسين أو رضي به، لأن هذا من أعظم الكبائر. فلعنة الله على من قتل الحسين أو أمر بقتله أو رضي بذلك.»
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یزید بن معاویہ صحابہ میں سے نہیں تھا، اور اس کے دور میں بہت بڑے منکرات پیش آئے، جن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل بھی شامل ہے۔ اہلِ سنت کے علماء کا یزید کے بارے میں اختلاف ہے:
کچھ نے اس پر لعنت کی، کچھ نے اسے فاسق کہا، اور کچھ نے توقف اختیار کیا۔
درست بات یہ ہے کہ وہ فاسق و ظالم تھا۔
نہ اسے محبوب رکھا جائے، نہ اس پر رضامندی ظاہر کی جائے، نہ اس کے لیے دعا کی جائے، بلکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے حضرت حسینؓ کے قتل کا حکم دیا یا اس پر خوش ہوا تو اُس پر لعنت کی جائے، کیونکہ یہ کبائر میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔
پس اللہ کی لعنت ہو اس پر جس نے حسینؓ کو قتل کیا، یا قتل کا حکم دیا، یا اس پر راضی ہوا۔"
حوالہ:
فتاوى نور على الدرب – شیخ العثیمین، شوال 1413ھ، سوال نمبر: 340 (مطبوعہ دار الثريا، جلد 24، صفحہ 122–124)