سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صائمہ بنت فقیر محمد ایک یتیم لڑکی ہے جس کی والدہ گونگی ہے، حقیقی بھائی کوئی نہیں اور حقیقی چچا بھی موجود نہیں۔ اس نے حسین نامی لڑکے سے بغیر اپنے قریبی رشتہ داروں کی مرضی کے، اپنے علاقائی بھائیوں کی اجازت سے ایک ولی مقرر کیا اور نکاح کر لیا۔ کچھ عرصہ دونوں چھپے رہے۔ راز ظاہر ہونے پر لڑکی کے ننھیالی اور دودھیالی رشتہ داروں نے طلاق کا مطالبہ کیا اور لڑکی کو واپس مانگا۔ ساجد کے والد نے اپنے بیٹے کو مجبور کیا کہ وہ صائمہ کے رشتہ داروں کا مطالبہ پورا کرے، کیونکہ بصورت دیگر تنازع بڑھنے کا خدشہ تھا۔ نتیجتاً ساجد نے طلاق دے دی۔ اب لڑکی حاملہ ہے اور اس کی عدت ۱۴-۳-۹۷ کو پوری ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ساجد رجوع کر سکتا ہے؟
مذکورہ بیان حلفاً درست ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اور بیان حلفی، مسئلہ مسئولہ میں تین نکات وضاحت طلب ہیں:
➊ کیا نکاح شرعاً منعقد ہوچکا ہے یا نہیں؟
➋ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
➌ اگر طلاق واقع ہوچکی ہے تو کیا وہ موثر ہو گئی ہے یا ابھی موثر نہیں ہوئی؟
ان تینوں نکات پر درج ذیل بحث پیش ہے:
۱: نکاح کے انعقاد کے بارے میں
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مشہور حدیث میں ہے:
(عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ») (ابو داؤد ج۲ ص۷۵، الترمذی ج۱ ص۲۰۳، ۲۰۴، الدارمی ج۲ ص۱۳۷، البیہقی ص۱۰۷۱۷، ارواء الغلیل ج۶ ص۲۳۶، نیل الاوطار ج۱ ص۱۳۵)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔
امام حاکم نے فرمایا کہ یہ روایت ازواج مطہرات حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سمیت تیس صحابہ سے مروی ہے۔ (ارواء الغلیل ج۶ ص۲۳۶)
امام علی بن مدینی، امام بخاری، امام حاکم اور حافظ ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ امام ناصر الدین البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا یہ حدیث قوی دلیل ہے کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے، خواہ عورت کنواری ہو یا بیوہ، بالغہ ہو یا نابالغہ۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت بالکل مجبور ہے اور ولی یکطرفہ طور پر نکاح ٹھونس سکتا ہے۔ بلکہ نکاح کا انعقاد ولی اور عورت دونوں کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ اگر ولی ظلم اور زیادتی کرے تو وہ شرعاً ولایت سے محروم ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ حدیث ہے:
(عَائِشَةَ أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ، وَمَا كَانَ مِنْ نِكَاحٍ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ بَاطِلٌ، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ») (سبل السلام ج۲ ص۱۲۱، نیل الاوطار ج۶ ص۱۲۶، ارواء الغلیل ج۶ ص۲۴۰)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اگر ولیوں میں جھگڑا ہو تو سلطان (قاضی) ولی بن جاتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی مروی ہے:
(إذا كان الولى مضارا فولت رجلا و أنكحها فنكاحه جائز) (رواہ الدارقطنی، المغنی، فتاویٰ اھل حدیث ج۲ ص۴۰۷)
یعنی اگر ولی نقصان دہ ہو اور عورت کسی دوسرے ذمہ دار شخص کو ولی بنا کر نکاح کرے تو نکاح جائز ہوگا۔
امام شافعی نے روایت نقل کی:
(عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ») (کتاب الام ج۵ ص۱۹، نیل الاوطار ج۶ ص۱۲۹، الدارقطنی ج۳ ص۲۲۲، ارواء الغلیل ج۶ ص۲۳۹، فتح الباری ج۹ ص۱۵۷)
ان سب روایات سے واضح ہوا کہ ولی ہدایت والا اور خیرخواہ ہونا چاہیے، ورنہ وہ ولایت سے محروم ہوجاتا ہے۔
سوال کے مطابق صائمہ بنت فقیر محمد نے اپنے علاقائی بھائیوں کی اجازت سے نکاح کیا ہے، لہٰذا یہ نکاح شرعاً صحیح ہے۔
جیسا کہ حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عورت کے لیے ولی ہونا ضروری ہے۔ اولاً والد، پھر بیٹا، پھر بھائی، پھر چچا، پھر دادا کی اولاد… غرض کہ حق ولایت باپ کی طرف سے ہے، ماں کی طرف سے نہیں۔” (فتاویٰ اھل حدیث ج۲ ص۴۰۷، ۴۰۸)
لہٰذا اس نکاح پر دور کے چچا یا ماموں کو اعتراض کرنے کا حق نہیں۔
۲: طلاق کے واقع ہونے کے بارے میں
حسین ساجد نے اپنے والد کے مشورے پر بقائمی ہوش و حواس طلاق دی ہے، لہٰذا طلاق واقع ہوچکی ہے۔
لیکن چونکہ تینوں طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی گئیں، اس لیے صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق یہ ایک رجعی طلاق شمار ہوگی:
(كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، ج۱ ص۴۷۷)
یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دو سال میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔
۳: رجوع کا حکم
چونکہ یہ طلاق حمل کے دوران دی گئی ہے اور صائمہ ابھی تک حاملہ ہے، اس لیے قرآن کے مطابق مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے:
﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ … ٤﴾ (الطلاق: ۴)
لہٰذا عدت ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ اس بنا پر نکاح بدستور قائم ہے اور ساجد اپنی بیوی صائمہ سے رجوع کرسکتا ہے۔
اس کے لیے نہ حلالہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی نئے نکاح کی، کیونکہ حلالہ کرنا ویسے بھی ملعون اور ناجائز عمل ہے۔
نتیجہ
◈ صائمہ کا نکاح ولی کی اجازت سے شرعاً صحیح ہے۔
◈ ساجد کی طلاق رجعی ہے اور ابھی عدت پوری نہیں ہوئی۔
◈ لہٰذا ساجد اپنی بیوی صائمہ سے رجوع کرسکتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب