سوال:
کیا ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
(حافظ حبیب محمد، بیاڑ، دیر)
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں، آدمی کی ہوا نکلنے سے یقیناً وضو ٹوٹ جاتا ہے، چاہے ہوا کم نکلے یا زیادہ، چاہے آواز کے ساتھ ہو یا بغیر آواز کے، چاہے بدبو آئے یا نہ آئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
حدیث سے دلیل
امام ابوداود (متوفی 275ھ) فرماتے ہیں:
"حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير بن عبد الحميد عن عاصم الأحول عن عيسى بن حطان عن مسلم بن سلام عن علي بن طلق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
(إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ، وَلْيُعِدْ الصَّلَاةَ)”
"جب تم میں سے کسی کو نماز میں ریح خارج ہو جائے تو وہ نماز سے نکل جائے، وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔”
(سنن ابی داود، کتاب الطہارة، باب فیمن یحدث فی الصلوٰة، حدیث: 205)
یہ حدیث حسن (لذاتہ) ہے، اور اسے ترمذی (1164)، نسائی (السنن الکبریٰ: 5/325، حدیث: 9025، 9026)، دارمی (السنن: 1/260، حدیث: 1146) وغیرہ نے عاصم الأحول کی سند سے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
امام ترمذی نے کہا:
"حدیث حسن” یعنی یہ حدیث حسن ہے۔
حافظ ابن حبان نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(الإحسان: 6/201، حدیث: 4189، دوسرا نسخہ: 6/8، حدیث: 2237، 9/514-515، حدیث: 4199، 4201، موارد الظمآن: 203، 204)
حدیث کے راویوں کا تعارف
◈ عثمان بن ابی شیبہ:
"ثقة حافظ شهير، وله أوهام وقيل: كان لا يحفظ القرآن”
(التقریب: 4513)
یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
◈ جریر بن عبدالحمید:
"ثقة صحيح الكتاب، وقيل: كان في آخر عمره يهم من حفظه”
(التقریب: 916)
یہ کتب ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔
◈ عاصم الأحول:
"ثقة، من الرابعة، لم يتكلم فيه إلا القطان، فكأنه بسبب دخوله في الولاية”
(التقریب: 3060)
◈ عیسیٰ بن حطان:
درج ذیل محدثین نے ان کی توثیق کی ہے:
(تاریخ الثقات: 1330، کتاب الثقات: 5/215)
◈ مسلم بن سلام الحنفی:
درج ذیل محدثین نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے:
(کتاب الثقات: 5/395، ثقات ابن شاہین: 1391)
◈ علی بن طلق:
یہ صحابی رسول ﷺ ہیں۔
(سنن الدارمی: ص 208، حدیث: 1146)
اضافی دلائل
◈ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لا فَلا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا”
"جب تم میں سے کسی کو پیٹ میں کچھ (حرکت) محسوس ہو اور اسے شک ہو کہ اس سے کچھ خارج ہوا ہے یا نہیں، تو وہ مسجد سے نہ نکلے جب تک کہ وہ کوئی آواز نہ سن لے یا کوئی بدبو محسوس نہ کرے۔”
(صحیح مسلم: 99/326، دارالسلام: 805)
◈ عبادہ بن تمیم کے چچا (عبداللہ زید المازنی رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:
"لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا”
"وہ نہ پلٹے جب تک کہ کوئی آواز نہ سن لے یا کوئی بدبو محسوس نہ کرے۔”
(صحیح بخاری: 177، صحیح مسلم: 98/361، دارالسلام: 804)
◈ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حتى يتوضأ”
"اللہ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ حدث (وضو توڑنے والی چیز) کر لے، یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔”
(صحیح بخاری: 135)
◈ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ”
"وضو اس چیز سے واجب ہوتا ہے جو خارج ہو، نہ کہ اس سے جو داخل ہو۔”
(الاوسط لابن المنذر، ج1، ص185، حدیث: 81، وسندہ صحیح)
نتیجہ
ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوا نکلنے سے وضو یقیناً ٹوٹ جاتا ہے، چاہے وہ آواز کے ساتھ ہو یا بغیر آواز کے، چاہے بدبو ہو یا نہ ہو، چاہے معمولی ہو یا زیادہ، وضو بہرحال کرنا ہوگا۔
یہی اہل حدیث کا مؤقف ہے اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ مسئلہ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب