سوال
صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ہوا خارج ہونے پر وضو فرض ہے، مگر استنجاء واجب نہیں۔ لیکن عقل یہ بات قبول نہیں کرتی کہ جس مقام سے ہوا خارج ہو اُسے صاف نہ کیا جائے، جبکہ وہ اعضاء جو پہلے ہی پاک ہیں، انہیں دھونا فرض ہو۔ اس بارے میں حکمت کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے یہ سوال کیا ہے کہ جب ہوا خارج ہو تو اس کی جگہ کو دھونا واجب کیوں نہیں، حالانکہ پیشاب یا پاخانے کی صورت میں دھونا لازم ہوتا ہے۔ دراصل:
◈ جب بول و براز خارج ہوتے ہیں تو وہ نجاست کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کے اخراج کی جگہ کو دھونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
◈ اسی طرح وضو کے دیگر اعضاء جیسے ہاتھ، چہرہ وغیرہ کو دھونا بھی طہارت کا ایک حصہ ہے اور ان کا حکم شرعاً مقرر ہے۔
لیکن جہاں تک صرف ہوا خارج ہونے کا معاملہ ہے:
◈ ایسی حالت میں کوئی نجاست یا ناپاک چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی۔
◈ چونکہ نجاست کا اخراج نہیں ہوا، اس لیے اس مقام کو دھونا شریعت میں واجب قرار نہیں دیا گیا۔
◈ اس بنا پر، ہوا خارج ہونے کے بعد وضو تو لازم ہے کیونکہ طہارت میں یہ ایک شرط ہے، لیکن مقامِ خروج کو دھونا ضروری نہیں۔
یہ حکمت اسی اصول پر مبنی ہے کہ جب تک نجاست ظاہر نہ ہو، شریعت نے دھونے کا حکم نہیں دیا۔
لہٰذا یہ کہنا کہ ہوا خارج ہونے کے بعد بھی اس جگہ کو دھونا چاہیے کیونکہ وہی مقام نجاست کے لیے مخصوص ہے، ایک غلط بات ہے۔ شریعت کا حکم نجاست کے ظاہر ہونے پر مبنی ہے، نہ کہ صرف ہوا کے اخراج پر۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب