سوال :
ہم جنس پرستی کے متعلق اسلام کا نکتہ نظر کیا ہے؟
جواب :
اسلام دین فطرت ہے اور اس کے تمام احکام فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہیں، وہ انسانیت کو حیوانیت کی ناپاکیوں سے نکال کر روحانی نور عطا کرتا ہے، اسلام ہر ہر معاملے میں ایک جانور اور انسان کے بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے، اسی طرح جنسیات کے باب میں بھی مکمل آگہی بخشی گئی ہے۔ اسلام فطری خواہش کی تکمیل کے لئے نکاح کو مشروع قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک مومن کی صفات یوں بیان کی ہیں
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
(المؤمنون : 5-7 المعارج : 29-31)
وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی خواہشات صرف اپنی بیویوں اور لونڈیوں پر پوری کرتے ہیں، اس ذریعے میں کوئی ملامت کی بات نہیں لیکن جو اس ذریعے سے آگے نکل کر کوئی طریقہ اختیار کرتے ہیں ، تو وہ لوگ حد سے بڑھ گئے ہیں۔
فطری خواہش کی تکمیل کی حد مقرر ہو گئی، اپنی بیوی کے پاس آؤ یا اپنی لونڈی سے حظ اٹھاؤ، اس کے سوا کوئی تیسرا رستہ اپنانا منع ہے۔
یعنی یہ دودر ستے فطرت سے ہیں اور ان سے سوا جتنے بھی راہ ڈھونڈ لئے گئے ہیں، وہ اللہ کے باغیوں کے اختیار کردہ رستے ہیں، وہ چاہے غیر عورت سے زنا ہو یا ہم جنس پرستی (Homosexuality)، ہر دوطریقے قبیح اور غیر فطری طریقے ہیں۔ اسلام نے جس طرح ایک زانی کے لئے حد مقرر کی ہے، اسی طرح ایک ہم جنس پرست(Homosexual) پر بھی حد مقرر کی گئی ہے۔
لواطت وہ قبیح فعل ہے، جو اس جہان میں سب سے پہلے قوم لوط میں پایا گیا، اس کی موجد قوم لوط کو کہا گیا ہے، قرآن کریم نے سید نا لوط علیہ السلام کا مقول نقل کیا ہے:
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
(29-العنكبوت:28)
لوط علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی برائی کی طرف آتے ہو، جو تم سے پہلے کسی نے انجام نہیں دی۔“
اور اسی گناہ کی پاداش میں ان پر انتہائی درد ناک عذاب مسلط کیا گیا، اللہ کے پیغمبر سید نا لوط علیہ السلام ایک وقت تک ان کو سمجھاتے رہے تبلیغ کرتے رہے۔
أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ
(الشعراء: 165-166)
”کیا سارے جہانوں میں سے تم مردوں سے خواہش پوری کرتے ہو اور اس راستے کو چھوڑ دیتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے؟ یقیناً تم حد سے بڑھی ہوئی قوم ہو۔“
لوگ ان کا ٹھٹھا اڑاتے، مذاق کرتے، اللہ کا پیغمبر تڑپتا کہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں، شاید یہ عذاب سے بچ جائیں، وہ عذاب سے ڈراتے. فرماتے :
أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
﴿العنكبوت: 29﴾
تم مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو، اپنی محفلوں میں برے کاموں کا ارتکاب کرتے ہو، تو اس کے جواب میں قوم کہنے لگی: اگر تو سچا ہے تو اللہ کا عذاب لے آ۔
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ
﴿الأعراف: 81-84﴾
تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے خواہش پوری کرتے ہو، تم حد سے بڑھی ہوئی قوم ہو، ہم نے ان پر پتھروں کی بارش کی اور دیکھئے مجرموں کا انجام کیا ہوتا ہے؟
یہ انسان نامی مخلوق جب سرکشی پر آتی ہے تو پھر اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے، الٹا ان سے مذاق کرتی ہے، انبیاء کی باتوں پر کھیں کھیں کرتی ہے، وہ عذاب سے ڈراتے ہیں، یہ عذاب سے نہیں ڈرتے، وہ سمجھاتے ہیں، یہ انہیں تکلیف دیتے ہیں، وہ انہیں جہنم سے بچانا چاہتے ہیں، یہ اپنے ہاتھ چھڑا لیتے ہیں، پیغمبر پیچھے کھڑے کلپتے رہ جاتے ہیں۔
قرآن ایک منظر بیان کرتا ہے:
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ ﴿٥٤﴾ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿٥٥﴾ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴿٥٦﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ ﴿٥٧﴾ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِينَ ﴿٥٨﴾
(27-النمل:54-58)
”لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اچھے بھلے سمجھدار ہو کر بھی بے حیائی کا کام کرتے ہو، اپنی شہوت عورتوں کی بجائے مردوں سے پوری کرتے ہو، یقینا تم جہالت برتتے ہو، تو اس کے جواب میں لوط علیہ السلام کی قوم کہنے لگی کہ لوط اور ان کے اہل خانہ کو بستی سے نکال دو، یہ لوگ زیادہ پاکیزہ بنتے ہیں۔ پھر ہم نے لوط علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کو نجات دے دی، ان کی بیوی کو نجات نہیں ملی، کیونکہ اس کے متعلق طے کر دیا گیا تھا کہ یہ پیچھے رہ جائے گی ، پھر ہم نے ان پر بارش برسائی، وہ بارش بہت بری ہے، جو ایسی قوم پر برسے، جس کو پہلے اللہ کے عذاب سے متنبہ کیا جا چکا ہو۔“
قوم نے اپنے محسن کے ساتھ جب یہ سلوک کرنے کی ٹھان لی ، تو اللہ کی لاٹھی حرکت میں آگئی، چند فرشتے سیدنا لوط علیہ السلام کے گھر میں خوبصورت اور حسین و جمیل شکل میں متشکل ہو کر آئے ، یہ قوم ان پر ہی برائی کے ارادے سے ٹوٹ پڑی، لوط علیہ السلام پریشان ہو جاتے ہیں، کہنے لگے کہ میری قوم! یہ میرے مہمان ہیں، مجھے میرے مہمانوں کے حوالے سے رسوانہ کیجئے ، چونکہ نبی قوم کے لئے باپ کے قائم مقام ہوتا ہے، سواسی لئے کہا : تمہاری بیویاں جو میری بیٹیاں ہیں ، وہ تمہارے لئے حلال ہیں ۔ ان سے اپنی خواہش پوری کرلو :
وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ
﴿هود: 78-79﴾
ان کی قوم ان کی طرف بھاگتی ہوئی آئی، یہ لوگ اس سے قبل بھی برائیاں کرتے آئے تھے ، لوط علیہ السلام کہنے لگے کہ میری قوم، یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ تمہارے لئے حلال ہیں، اللہ سے ڈر جاؤ اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے شرمندہ نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی سمجھدار انسان نہیں ہے، وہ کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کچھ غرض نہیں ہے، آپ اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ کبھی فرماتے:
قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ
﴿الحجر: 71-72﴾
یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، اگر تم اپنی خواہش پوری کرنا ہی چاہتے ہو، تو ان سے کر لو قسم ہے تیری عمر کی ! وہ لوگ اپنی مدہوشی میں بھٹکے پھرتے تھے ۔
جب سرکشی حد سے بڑھ گئی اور پیغمبر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، تو ہاتھ اٹھا دیئے:
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ
﴿العنكبوت: 30﴾
”میرے رب ! اس فسادی قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔“
یہ رات گزری تھی کہ عذاب کا کوڑا آن پڑا ۔
فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ
﴿الحجر: 73-74﴾
صبح کی پوپھوٹی تو ایک ہولناک چیخ پڑی ، ہم نے اس بستی کو الٹادیا ، او پری حصہ نیچے کر دیا اور نیچے والا اوپر کر دیا ، پھر ان پر پتھروں کی بارش کر دی۔ اور یوں وہ نشان عبرت بنا دیکیگئے :
وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
﴿العنكبوت: 35﴾
”ہم نے باشعور معاشروں کے لئے قوم لوط کو واضح نشانی بنا دیا ہے۔“
احکام الہی کا تمسخر اڑانے والوں اور خائن عصمت قوموں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔
دنیا میں توہین و تذلیل ، ذلت وخسران، زبوں حالی اور پر یشانی و پشیمانی ان کا مقدر بنتی ہے۔
❀ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ
﴿هود: 82-83﴾
”جب ہمارا امر آچکا، تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا کر رکھ دیا ، اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا او پر چلا گیا ، پھر ان پر پتھروں کی بارش کر دی، کنکروں والے پتھر ، جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان تک لگے ہوئے تھے، اور یہ پتھر ظالموں سے کچھ بعید نہ تھے۔“
اللہ نے اپنے نبی کو سرخروکیا، ظالمین فاسقین اور مفسدین کا قلع قمع کر دیا گیا:
وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ ۗ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ
﴿الأنبياء: 74﴾
”ہم نے لوط علیہ السلام کو علم و حکمت کی دولت عطا کی اور اس بستی سے نجات دی، جو خبائث کا ارتکاب کرتے تھے ، یقیناً وہ لوگ فاسق لوگ تھے ۔“
یہ اتنا شنیع جرم ہے کہ اللہ کریم نے اس کے مرتکبین پر پتھروں کا عذاب نازل کیا، ان کی بستی کو الٹا دیا گیا، اور پھر قیامت تک کے لئے ان کو نشان عبرت بنا دیا گیا، یقیناً فحاشی اور بدکاری کا ارتکاب وہی لوگ کرتے ہیں ، جن کی فطرت مسخ ہو چکی ہو، ان میں بہیمانہ صفات در آئی ہوں اور شیطان ان پر تسلط کر چکا ہو، اس مکروہ اور خبیث فعل کا ارتکاب بندر اور خنزیر بھی نہیں کرتے ، جو کفار کر لیتے ہیں ۔
ہم جنس پرستی معاشرے کے لئے ناسور ہے، یہ ایسی درندگی ہے، جو زہر ہلاہل سے زیادہ قاتل ثابت ہوتی ہے۔ یہ انتہائی مہلک غلطی اور نفس کا دھوکہ ہے، جو عزت کے معیار کو تار تار کر دیتا ہے۔ اس خبیثہ سے ہر حقیقت شناس اور سلیم الفطرت انسان کو گھن آتی ہے، دل کالے ہو جاتے ہیں اور یہ انسانی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جو قومیں اس عمل میں مبتلا کر دی جائیں، اللہ کی جانب سے سخت گرفت کا شکار ہو جاتی ہیں ، ناسپاسی اور نا فرمانی کے برے نتائج ان کی حالت سے ظاہر ہوتے ہیں، ان کی اخلاقی زندگی کا معیار انتہائی پست ہونے لگتا ہے ، عفت و عصمت کا جو ہر گم کر بیٹھتی ہیں اور ہمت و شجاعت ان سے مفقود ہو جاتی ہے۔
❀ امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (187ھ) فرمایا کرتے تھے :
لو أن لوطيا اغتسل بكل قطرة من السماء لقي الله غير طاهر
ایک لوطی اگر آسمان سے گرنے والے پانی کے ہر قطرے سے نہالے، تو بھی اللہ کوناپاکی کی حالت میں ملے گا۔
(ذم الهوى لابن الجوزي، ص 208 ، وسنده صحيح)
لواطت سے رشتوں کا تقدس اور حرمت بھی ختم ہو جاتی ہے، اسی لئے قرآن نے اسے فاحشہ اور خبائث سے تعبیر کیا ہے۔ فاحشہ اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی حد سے گزر جائے۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
﴿الأعراف: 33﴾
” کہہ دیجئے کہ میرے رب نے ظاہری و باطنی بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح گناہ اور ناحق زیادتی کو حرام قرار دیا ہے، میرے رب نے اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ تم اس کے ساتھ شرک کرنے لگو ، جس پر کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی ہے، اور اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہنے لگو جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ “