ہدیہ پیش کرنے اور قبول کرنے کا شرعی حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، صفحہ 528

سوال

استادِ محترم، بزرگ، عالمِ دین اور کسی حقیقی درویش مسلمان کی خدمت میں، کیا کوئی شاگرد، مرید یا دوست کسی بھی قسم کا ہدیہ یا تحفہ پیش کر سکتا ہے؟ اگر شاگرد یا دوست کا دیا ہوا تحفہ بزرگ کی "بارگاہ” تک پہنچ نہ سکے تو اس شدید دل شکنی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ نیز، اگر میرا دل چاہے کہ میں محترم حافظ صاحب کی خدمت میں بطور ہدیہ (تھادو تھابو) کچھ پیش کروں، مگر آپ از راہِ شفقت اس تحفے کو قبول نہ کریں، تو کیا یہ طرزِ عمل سنت کے مطابق ہوگا یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہدیہ پیش کرنا اور پھر اسے قبول کرنا شرعاً درست ہے، بشرطیکہ یہ ہدیہ رشوت کی صورت اختیار نہ کرے اور اس سے دین و ایمان میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے