سوال
قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ – یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾
ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ کے اختیار میں ہیں۔ تو انسان قصور وار کیوں ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے سوال میں جو الفاظ لکھے ہیں: ﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ – یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾
یہ الفاظ بعینہٖ قرآنِ مجید میں مجھے نہیں ملے۔ براہِ کرم آپ سورت اور آیت نمبر کی نشاندہی فرمادیں تاکہ وضاحت ہوسکے۔
اصل سوال یہ ہے کہ: ’’ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں تو انسان قصور وار کیوں ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے
قرآنِ مجید کی کئی آیات میں وضاحت موجود ہے کہ رزق صرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر فرمایا گیا:
﴿إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (٥٨)﴾ (الذاریات) ’’ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘
تو پھر سائل صاحب سے پوچھئے: جب رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور یہ اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر انسان رزق حاصل کرنے کے لئے کیوں دکان کھولتا ہے، فیکٹری لگاتا ہے، مزدوری کرتا ہے، ملازمت اختیار کرتا ہے یا زراعت کرتا ہے؟ آخر یہ سب کوششیں کیوں؟
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (٢١)﴾ (الحجر) ’’ اور جتنی بھی چیزیں ہیں، ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہر چیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔‘‘
ہدایت و ضلالت اور مشیتِ الٰہی
آیات ﴿ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآء ﴾ اور ﴿ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآء ﴾ کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کے پاس ہدایت یا گمراہی کا اختیار ہی نہیں۔ ’’مَنْ یَّشَآء‘‘ کے الفاظ انسان کی مشیت، اس کے ارادے اور اختیار کو ختم نہیں کرتے۔
انسان کے دیگر اعمال پر غور کیجئے۔ مثلاً کسی کا گھر سے نکل کر دفتر یا فیکٹری جانا بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٢٩)﴾ (التکویر) ’’ اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘
لیکن اس کا یہ مطلب کبھی نہیں لیا گیا کہ انسان اپنی مرضی کے بغیر گھر سے نکلتا ہے یا جبر کے تحت کام کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہدایت اور گمراہی کے معاملے میں بھی انسان اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔
قرآن کی وضاحت ہدایت اور گمراہی کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں وضاحت کردی ہے کہ ہدایت اور گمراہی کس بنیاد پر ملتی ہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں:
◄ ﴿ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ (١٣)﴾ (الشوریٰ) ’’ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے، وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔‘‘
◄ ﴿الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (١٨)﴾ (الزمر) ’’ جو بات کو کان لگاکر سنتے ہیں، پھر جو بہترین بات ہو، اس کا اتباع کرتے ہیں یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔‘‘
◄ ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ (٦٩)﴾ (العنکبوت) ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھادیں گے۔‘‘
◄ ﴿وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ﴾
◄ ﴿وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ﴾
◄ ﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ﴾
◄ ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴾
نتیجہ
لہٰذا انسان قصور وار اس لیے ہے کہ اس نے اپنی آزاد مشیت اور اپنے اختیار سے، بغیر کسی جبر کے، ظلم اور فسق کی بنیاد پر گمراہی کو چُنا۔ اسی انتخاب کی بنا پر وہ جواب دہ اور قابلِ مواخذہ ہے۔
واللہ اعلم۔