سوال
علماے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ:
مرحوم حاجی عبدالحق وفات پا گئے اور ان کے ورثاء میں پانچ بیٹیاں شامل تھیں۔ اپنی زندگی میں مرحوم نے تین بیٹیوں کو زمین اور سونا برابر برابر دیا۔ باقی دو بیٹیوں کو ایک مکان بطور ہبہ دے دیا، اور اس پر تینوں بہنوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس واقعہ کو تقریباً تین سال گزر گئے۔
بعد ازاں وہ دونوں بیٹیاں جنہیں مکان ملا تھا، انہوں نے وہ مکان فیض محمد کو فروخت کر دیا اور قبضہ بھی دے دیا۔ اس وقت سے فیض محمد اس مکان میں مقیم ہے۔ اس معاملے پر تینوں بہنوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ مکان کی فروخت کو تقریباً دس سال گزر چکے ہیں۔ اب انہی تین بہنوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ مجھے اس مکان میں سے حصہ ملنا چاہیے۔
شرعی طور پر وضاحت مطلوب ہے کہ کیا اس بہن کو اس مکان میں حصہ ملے گا یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات واضح رہے کہ یہ ہبہ اور تقسیم بالکل درست اور جائز ہے۔
◈ تین بیٹیوں کو زمین اور سونا برابر برابر دیا گیا۔
◈ باقی مکان کو دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
یہ تقسیم عین انصاف پر مبنی ہے، لہٰذا مکان کی مالکان صرف وہی دو بیٹیاں ہیں جنہیں ہبہ کیا گیا تھا۔
یہ ہبہ شرعاً صحیح ہے اور وہ دونوں بیٹیاں اس مکان کو فروخت کرنے کی مکمل حق دار تھیں۔ چونکہ دس سال تک اس معاملے پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور فیض محمد قبضے میں بھی ہے، اس لیے اب کسی کو اعتراض کا حق باقی نہیں رہا۔
احادیث مبارکہ
پہلی حدیث
((عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم العائد فى هبته كالكلب يقئى ثم يعود فى قيئه.))
صحيح البخاري: كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليه، باب نمبر ٣٠
صحيح مسلم: كتاب الهبات، باب نمبر ٢
‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہبہ کی ہوئی چیز میں لوٹنے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے پھر اس قے کو واپس کھا لیتا ہے۔’’
دوسری حدیث
((عن ابن عمرو بن عباس رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يحل للرجل أن يعطى العطية ثم يرجع فيها إلا والد فيما يعطى ولد.))
رواه احمد، ج ١، ص ٢٣٧، رقم: ٢١٢٣
‘‘ابن عمرو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی کو عطیہ دے اور پھر اس کو واپس لے لے، سوائے والد کے کہ وہ اپنے بیٹے کے عطیہ میں ایسا کر سکتا ہے۔’’
خلاصہ
◈ مرحوم عبدالحق کی تقسیم زندگی ہی میں منصفانہ طور پر ہو چکی تھی۔
◈ دونوں بیٹیاں جنہیں مکان ملا تھا، اس کی مکمل مالک تھیں۔
◈ مکان کو فروخت کرنے کے بعد اور دس سال گزرنے کے باوجود کوئی اعتراض نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حق مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
◈ اب کسی بہن کا مکان میں حصہ طلب کرنا شرعاً درست نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب