ہبہ اگر بغیر بدلے کے ہو تو اس کا حکم تمام گذشتہ معاملات میں ہدیہ جیسا ہے
لغوی وضاحت: لفظِ هبة ، باب وَهَبَ يَهِبُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”ہبہ کرنا ، یا عطیہ دینا“ ہے ۔
[لسان العرب: 411/15 ، المنجد: ص/ 988]
اصطلاحی تعریف: بغیر عوض کے کسی شخص کو کوئی مال یا حق دینا ۔ ہدیہ بھی اسی کو کہتے ہیں ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 3981/5]
مشروعیت:
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا [النساء: 4]
”اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو ۔“
➋ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ [البقرة: 177]
”جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کو دے ۔“
➌ تهادوا تحابوا
”ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تا کہ ) باہمی محبت قائم ہو سکے ۔“
[موطا: كتاب الجامع: باب ماجاء فى المهاجرة ، بخارى فى الأدب المفرد: 594]
➍ لا تحقرن جارة أن تهدى لجارتها ولو فرسن شاة
”ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے (معمولی ہدیہ کو بھی) حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو ۔“
[بخاري: 2556 ، كتاب الهبة وفضلها: باب]
کیونکہ لغوی و شرعی اعتبار سے ہبہ ہدیہ ہی ہے۔
گذشتہ معاملات سے مراد یہ ہے: کافر سے ہدیہ قبول کرنا ، ہدیہ دے کر واپس نہ لینا ، اولاد کے درمیان انصاف کرنا اور بغیر کسی شرعی مانع کے ہدیہ واپس نہ کرنا ۔
اگر یہ کسی عوض کے بدلے ہو تو یہ بیع ہے اور اس کا حکم بھی بیع جیسا ہی ہے
کیونکہ بیع میں باہمی رضامندی اور معاوضے کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں ہبہ بالعوض میں اس وقت موجود ہوتی ہیں جب عوض ہبہ کے وقت ہی دیا جائے اگر ایسا نہ ہو تو یہ ہدیہ ہے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر ہبہ بلا عوض ہو تو ہدیہ ہے اور اس کے لیے گذشتہ ہدیے کے احکامات ہوں گے اور اگر بالعوض ہے تو اس پر بیع کے گذشتہ احکامات لاگو ہوں گے ۔
[الروضة الندية: 350/2]
عمٰری اور رقبٰی اس شخص کے لیے ملکیت کو واجب کر دیتے ہیں جس کے لیے ان کا اقرار کیا گیا ہو اور اس کے بعد وہ اس کے ورثاء کے لیے ہوں گی انہیں واپس لینا جائز نہیں
لفظِ عمري عمر سے ماخوذ ہے یعنی وہ چیز جوزندگی بھر کے لیے دی جائے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جاہلیت میں ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو گھر دیتا تو کہتا:
أبحتها لك مدة عمرك وحياتك
”میں نے اسے تیری عمر اور زندگی کی مدت تک مباح قرار دیا ہے۔ پھر کہا جاتا تھا کہ یہ فلاں کے لیے عمرٰی ہے ۔“
[المنجد: ص/ 582 ، نيل الأوطار: 74/4 ، الروضة الندية: 350/2 ، قفو الأثر: 1138/3]
لفظِ رقبي مراقبہ سے ماخوذ ہے ، اس کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں دونوں ایک دوسرے کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ وہ چیز اس کی طرف لوٹ آئے (جو زندہ رہ گیا ہے ) اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو کچھ ہبہ کرے اس شرط پر کہ اگر تم پہلے فوت ہو گئے تو یہ چیز میری طرف لوٹ آئے گی اور اگر میں پہلے فوت ہو گیا تو یہ تمہاری ہو جائے گی ۔
[المنجد: ص: 306 ، أيضا]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العمري جائزة
”عمری جائز ہے ۔“
صحیح مسلم کی روایت میں یہ لفظ ہیں:
العمري ميراث لأهلها
”عمری اپنے اہل کی میراث ہے ۔“
[بخاري: 2626 ، كتاب الهبة وفضلها: باب ، مسلم: 1625 ، كتاب الهبات: باب العمري ، ابو داود: 3548 ، نسائي: 277/6 ، احمد: 429/2 ، طحاوي: 92/4 ، بيهقى: 174/6]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
قضي رسول الله بالعمرى لمن وهبت له
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمری کا فیصلہ اسی شخص کے لیے کیا جس کے لیے اسے ہبہ کیا گیا ہے ۔“
[بخاري: 2625 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها: باب ما قيل فى العمري والرقبي]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تعمروا ولا ترقبوا فمن أعمر شيئا أو أرقبه فهو له حياته و مماته
”نہ تم عمری کرو نہ رقبی ، جس نے عمری یا رقبی دیا تو وہ چیز اس کے لیے ہے (جس کے لیے اسے ہبہ کیا گیا) زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی (یعنی وفات کے بعد ورثاء اس کے مستحق ہوں گے ) ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 3493 ، كتاب العمري: باب ذكر اختلاف الفاظ الناقلين لخبر جابر فى العمري ، نسائي: 3763 ، احمد: 26/2]
واضح رہے کہ رقبي ایک دوسرے کی موت کے انتظار کی صورت میں جائز نہیں کیونکہ اس كى دليل:
هى لك من عشت فإنها ترجع إلى صاحبها
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور رقبي کی جائز صورت وہ ہے جب یہ عمری کے معنی میں ہو جیسا کہ پیچھے دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں ۔“
[الروضة الندية: 350/2 ، نيل الأوطار: 74/4]
اس کی تین صورتیں ہیں:
➊ مطلق طور پر عمر بھر کے لیے ہبہ کر دینا ۔
➋ موہوب کی زندگی کی شرط پر دینا ۔
➌ یوں کہنا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تمہارے بعد تمہارے ورثاء کے لیے ہے ۔
تیسری صورت جمہور کا مؤقف ہے اور یہی راجح ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فتح الباري: 282/5 ، نيل الأوطار: 74/4 ، قفو الأثر: 1139/3]