اللہ تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے خود مختاری عطا کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ان قوانین کی خلاف ورزی نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ مال و دولت بھی ان نعمتوں میں شامل ہے، اور انسان کو اس میں جائز تصرف کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر، ایک مسلمان اپنی زندگی میں بھی اپنی اولاد کو مال تقسیم کر سکتا ہے اور جتنا چاہے اپنے لیے بھی رکھ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ زندگی میں ہونے والی تقسیم وراثت کے زمرے میں نہیں آتی کیونکہ وراثت اس مال کو کہا جاتا ہے جو انسان کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو غیر اختیاری طور پر منتقل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں مال تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اسے ہبہ (تحفہ) کے قوانین کے تحت تقسیم کرنا ہو گا۔
ہبہ اور اس کے اسلامی قوانین
جب کوئی شخص کسی کو بلا معاوضہ کوئی چیز دیتا ہے تو اسے ہبہ، ہدیہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اسلامی قوانین درج ذیل ہیں:
- اولاد میں مساوی تقسیم: ہبہ کرتے وقت بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر کا حصہ دیا جائے گا۔
- کسی کو محروم کرنا ظلم ہے: اگر کچھ اولاد کو دیا جائے اور کچھ کو محروم کیا جائے تو یہ ناانصافی اور باطل اقدام شمار ہو گا۔
- تقسیم کی منسوخی: ایسی تقسیم، جس میں بعض کو محروم کیا گیا ہو، فسخ ہو جائے گی اور وہ چیز واپس لینا واجب ہو گا۔
- رضامندی سے ہبہ: اگر باقی اولاد کی رضامندی سے کسی بیٹے یا بیٹی کو کوئی چیز ہبہ کی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
- زیادہ دینے کی اجازت: اگر کسی کو زیادہ دیا جائے اور باقی اولاد کو اعتراض نہ ہو، تو یہ بھی جائز ہے۔
- باپ کا حق واپسی: باپ اپنی اولاد کو ہبہ کی ہوئی چیز کسی بھی وقت بغیر کسی وجہ کے واپس لے سکتا ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔
- حمل میں موجود بچے کو ہبہ: ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو ہبہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔
- ہبہ کو قبول کرنا: چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو، ہبہ کو قبول کرنا چاہیے۔ اسے رد کرنا پسندیدہ نہیں۔
- واجب الادا چیز کا ہبہ: کسی کے ذمے واجب الادا چیز کو بھی ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
- مطالبہ نہیں کیا جا سکتا: ہبہ کرنے والا اپنی مرضی سے ہبہ کرتا ہے، اس سے مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
- مساوات کا اصول: قانونِ ہبہ کے تحت، تمام اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں کو برابر کا حصہ ملے گا اور ان کے درمیان عدل اور مساوات واجب ہے۔
دلائل شرعیہ: ہبہ اور اولاد میں مساوات
-
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کا واقعہ
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْہِبَۃِ لِي مِنْ مَّالِہٖ، ثُمَّ بَدَا لَہٗ، فَوَہَبَہَا لِي، فَقَالَتْ : لاَ أَرْضٰی حَتّٰی تُشْہِدَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِیَدِي وَأَنَا غُلاَمٌ، فَأَتٰی بِيَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنَّ أُمَّہٗ بِنْتَ رَوَاحَۃَ سَأَلَتْنِي بَعْضَ الْمَوْہِبَۃِ لِہٰذَا، قَالَ : أَلَکَ وَلَدٌ سِوَاہُ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَأُرَاہُ قَالَ : لاَ تُشْہِدْنِي عَلٰی جَوْرٍ۔
(صحیح البخاری: 2585، صحیح مسلم: 1623)
ترجمہ: ’’میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ مجھے اپنے مال سے کوئی چیز ہبہ کریں۔ (پہلے انہوں نے انکار کیا) بعد میں وہ راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کردی۔ میری والدہ نے کہا: جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہیں بنائیں گے، میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، میں ابھی نو عمر تھا۔ عرض کیا: اس لڑکے کی والدہ (عمرہ) بنت رواحہ مجھ سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ میں اسے ایک چیز ہبہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تمہاری اس کے علاوہ بھی کوئی اولاد ہے؟” انہوں نے عرض کیا: "جی ہاں!” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔”‘‘
-
اولاد میں مساوات کا حکم
صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قَارِبُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ۔
ترجمہ: ’’اپنی اولاد کے مابین برابری کرو۔‘‘
(صحیح مسلم: 1623)
-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ، اِعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ۔
ترجمہ: ’’اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 275/4، سنن أبي داود: 3544، سنن النسائي: 262/6، وسندہ حسن)
-
ہبہ میں مساوات
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي ہٰذَا غُلَامًا، فَقَالَ : أَکُلَّ بَنِیکَ نَحَلْتَ؟ قَالَ : لَا، قَالَ : فَارْدُدْہُ۔
ترجمہ: ’’میں نے اپنے اِس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا آپ نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی ایسا ہی دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے ہبہ واپس لے لو۔‘‘
(صحیح مسلم: 1623)
-
اولاد کے درمیان انصاف
ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَفَعَلْتَ ہٰذَا بِوَلَدِکَ کُلِّہِمْ؟ قَالَ : لَا، قَالَ : اِتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِکُمْ۔
ترجمہ: ’’کیا آپ نے اپنی ساری اولاد کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘
(صحیح مسلم: 1623)
-
ہبہ کا انکار
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَکَ بَنُونَ سِوَاہُ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَکُلَّہُمْ أَعْطَیْتَ مِثْلَ ہٰذَا؟ قَالَ : لَا، قَالَ : فَلَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ۔
ترجمہ: ’’کیا آپ کے اس کے علاوہ اور بیٹے بھی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے سب کو اس کے برابر دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘
(صحیح مسلم: 1623)
-
والدین کا انصاف
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں انہیں بیس وسق مال عطا کیا تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا: إِنِّي کُنْتُ نَحَلْتُکِ جَادَّ عِشْرِینَ وَسْقًا، فَلَوْ کُنْتِ جَدَدْتِیہِ وَاحْتَزْتِیہِ کَانَ لَکِ، وَإِنَّمَا ہُوَ الْیَوْمَ مَالُ وَارِثٍ۔
ترجمہ: ’’میں نے تمہیں بیس وسق مال دیا تھا، اگر تم نے اسے قبضہ میں لے لیا ہوتا تو وہ تمہارا تھا، لیکن اب یہ وراثت کا مال بن چکا ہے۔‘‘
(الموطأ: 752/2، السنن الکبریٰ للبیہقي: 295/6)
خلاصہ
ان احادیث اور واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہبہ کرتے وقت اولاد میں عدل اور مساوات ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اولاد کو زیادہ دینے اور کسی کو محروم کرنے کو ظلم قرار دیا ہے، اور ایسا ہبہ واپس لینا واجب ہے۔