جب نجاست کسی مائع چیز میں گر جائے تو اسے پینا جائز نہیں اور اگر وہ چیز جامد ہو تو اسے اور اس کے ارد گرد کے حصے کو پھینک دیا جائے
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
أن رسول الله سئل عن فأرة سقطت فى سمن فقال: ألقوها وما حولها فاطرحوه وكلوا سمنكم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی میں گر (کر مر ) جانے والی چوہیا کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اور اس کے ارد گرد کے حصے کو نکال کر پھینک دو اور اپنا گھی کھا لو ۔“
[بخاري: 235 ، كتاب الوضوء: باب ما يقع من النجاسات فى السمن والماء ، مؤطا: 971/2 ، ابو داود: 3841 ، نسائي: 178/7 ، ترمذي: 1798 ، دارمي: 188/1 ، أحمد: 329/6 ، مسند حميدي: 149/1 ، بيهقي: 353/9]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا وقعت الفأرة فى السمن فإن كان جامدا فألقوها وما حولها وإن كان مائعا فلا تقربوه
”جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر گھی جامد ہو تو اسے (چوہیا کو ) اور اس کے ارد گرد کے حصے کو پھینک دو اور اگر مائع ہو تو اس کے قریب بھی مت جاؤ ۔“
[شاذ: ضعيف ابو داود: 827 ، كتاب الأطعمة: باب فى الفأرة تقع فى السمن ، ابو داود: 3842 ، نسائي: 4260 ، ابن حبان: 335/2 ، 1389]
(شوکانیؒ) ان احادیث کے مدمقابل کوئی قابل حجت چیز نہیں ہے (یعنی جو کچھ ان احادیث میں موجود ہے اسی پر عمل کر لینا چاہیے ) ۔
[السيل الجرار: 110/4]
(ابو حنیفہؒ) جس گھی میں چوہیا گری ہو اس سے چوہیا نکال کر اس سے فائدہ حاصل کرنا اور سے فروخت کرنا جائز ہے ۔
(ابن حزمؒ ) اس گھی سے فائدہ اٹھانا اور اسے فروخت کرنا دونوں کام حرام ہیں اور اگر اسے جائز قرار دے دیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ نعوذ بالله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال کے ضیاع کا حکم دیا ہے ۔
[المحلى بالآثار: 147/1 – 148]