گھوڑ دوڑ اور دیگر مقابلے
دوڑ کی بعض صورتوں کے احکام
(1) گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ لگوانا اور گھڑ سواری میں مہارت حاصل کرنے اور جہادی تربیت پانے کے لیے جہازوں، ٹینکوں اور اسلحہ وغیرہ کی طرح کے سامان جہاد اور آلات حرب میں مقابلے کروانا مسلمانوں کی جہاد، دفاع بلاد، نصرت دین اور اشاعت اسلام کی ضرورت کے تحت بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے اور کبھی مستحب۔ جو شخص ان کا اہتمام کرتا ہے یا اپنی کسی مہارت، سوچ یا مال کے ذریعے سے کسی بھی طرح ان کے لیے معاونت فراہم کرتا ہے وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔
(2) دوڑ میں شریک افراد میں سے کامیاب ہونے والوں کا انعامات حاصل کرنا جائز ہے۔ اگر یہ انعام صدر مملکت یا اس کے کسی نائب کی جانب سے ہو یا دوڑ میں شریک نہ ہونے والے افراد کی طرف سے رضا کارانہ طور پر اس کا اہتمام کیا جائے۔ ان لوگوں میں سے جو یہ کام کرتا ہے، اگر اس کی نیت رضاء الہی کا حصول ہے تو اس کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ» [الأنفال: 60]
”اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور پنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”صرف اونٹ، گھوڑے اور تیر اندازی کے مقابلے بازی میں عوض لینا ہے۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 3585]
اگر انعام کسی شریک دوڑ کی طرف سے خو شدلی اور رضامندی کی بنا پر ہو کہ جو جیت جائے وہ انعام لے لے، تو یہ جائز ہے کیونکہ اس میں جو انہیں، لیکن اگر انعام ٹکٹ خرید کر دوڑ دیکھنے والے تماشائیوں میں سے صرف چند افراد کے لیے ہو تو یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں تماشائیوں کے درمیان جوا بازی ہے۔
لیکن اگر حاکم سلطنت یا کوئی مخیر شخص انعامات کی رقم دے دے اور دوڑ دیکھنے کے لیے آنے والوں کو مفت بلا عوض ٹکٹیں دے دی جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں، لیکن دوڑ لگوانے اور دیکھنے کا مقصد شرعی ہو اور وہ پورا ہونا چاہیے۔
[اللجنة الدائمة: 3219]