گھر سے بدشگونی لینے اور اسے منحوس سمجھنے کا شرعی حکم
سوال:
ایک شخص نے ایک ایسے گھر میں رہائش اختیار کی جہاں رہنے کے بعد وہ اور اس کے اہلِ خانہ متعدد بیماریوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو گئے۔ اس بنا پر وہ اس گھر کو منحوس تصور کرتے ہیں۔ کیا اس بنا پر اس شخص کے لیے اس گھر کو چھوڑ دینا شرعاً جائز ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ بعض گھر، بعض سواریاں یا بعض عورتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت، نقصان واقع ہوتا ہے یا فائدے کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔
◈ اس لیے اگر کوئی شخص ایسے گھر میں رہائش پذیر ہو جہاں اسے مسلسل مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہو رہا ہو، تو اس کے لیے ایسا گھر بیچ کر کسی دوسرے گھر میں منتقل ہو جانا شرعاً بالکل جائز ہے۔
◈ ممکن ہے کہ جس نئے گھر میں وہ منتقل ہو، اللہ تعالیٰ اس میں خیر و برکت عطا فرما دے۔
حدیث مبارکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« الشُّؤْمُ فِی ثَلَاثَةٍ فِی الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ»
(صحیح البخاري، الجهاد والسير، باب ما ذکر فی شوم الفرس، ح:۲۸۵۸ وصحیح مسلم، السلام، باب الطيرة والفال وما یکون فيه الشوم، ح: ۲۲۲۵)
ترجمہ: "بدشگونی تین چیزوں میں ہو سکتی ہے: گھوڑے، عورت اور گھر میں۔”
◈ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مخصوص سواریوں، بیویوں یا گھروں میں واقعی بدشگونی (منحوس اثرات) ہو سکتے ہیں۔
◈ تاہم، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کی تقدیر اور حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان اسباب کو ایسی صورت میں مقدر فرمایا تاکہ انسان کسی بہتر جگہ یا حالت کی طرف منتقل ہو جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب