گھریلو مسجد میں نماز اور اذان کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مئلہ میں کہ ایک آدمی نے اپنے مکان زنانہ کے گوشہ میں ایک مسجد تعمیر کروائی، اس غرض ونیت سے، کہ صرف اس مکان کی عورتیں اس مسجد میں نماز پڑھیں، اور بوجہ پردہ کے اذان و اقامت ہو نہیں سکتی ہے پس ایسی صورت میں اس پر مسجد کا حکم ہو گا یا نہیں، اور بلا اذن مالک مکان کے غیر عورتوں کو اس مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کا حق ہے یا نہیں، اور اگر اس مسجد میں اذان و اقامت نہ ہو تو بانی مسجد گناہ گار ہو گا یا نہیں، اور اس بستی میں ایک مسجد عام ہے، کہ جس کی اذان کی آوا ز بخوبی اس مسجد میں بھی آتی ہے، تو وہی اذان اس مسجد کے واسطے کافی ہو گی یا نہیں، اور زمین اس مسجد زنانہ کی موقوفہ ہو جاوے گی یا نہیں۔ بينوا توجروا

الجواب

صورت مسئولہ میں جو مسجد گوشہ مکان زنانہ میں تعمیر کی گئی ہے اس پر حکم و اطلاق مسجد کا ہو سکتا ہے، گو اس میں اذان نہ ہو، اور نہ بانی مسجد آثم ہو گا اور نہ زمین اس کی موقوفہ ہو گی، چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
ان عتبان بن مالك وهو من أصحاب رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم ممن شهدا بدوا من الأنصار انه لقومي فإذا كانت الا مطار سال الوادي الذى بيني و بينهم لم استطع ان آتو مسجد هم فاصلي بهم ودودت يا رسول اللّٰه انك تاتيتي فتصلي فى بيتي فاتخذه مصلي فقال له رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: «سا فعل إن شاء اللّٰه تعاليٰ» قال عتبان فغدا عليّ رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم و ابو بكر رضى الله عنه حين ارتفع النهار فاستأذن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم فاذنت له فلم يجلس حين دخل البيت ثم قال اين تحب أن أصلي فى بيتك قال فاشرت له الي ناحية من البيت فقام رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم فكبر فقمنا فصففنا فصلي ركعتين ثم سلم
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عتبان بن مالک بدری نے آپ سے عرض کیا، یا رسول اللہ میری نظرکمزور ہے اور میں قوم کا امام ہوں۔ جب بارشیں ہوتی ہیں اور نالے بہنے لگتے ہیں تو میں مسجد میں آ کر ان کو نماز پڑھا نہیں سکتا میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں، میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں گا تو آپ نے فرمایا انشاء اللہ میں آؤں گا، پھر آپ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ دن چڑھے تشریف لائے آپ اجازت لے کر گھر میں داخل ہوئے تو آپ بیٹھے نہیں اور فرمایا کہ تو کہاں چاہتا ہے کہ میں تیرے گھر میں نماز پڑھوں، میں نے مکان کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کیا، آپ نے کھڑے ہر کر وہاں تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بنائی، آپ نے دو رکعت پڑھی اور پھر سلام پھیرا۔‘‘
"وفي العالگيرته من بني مسجد الم يزل ملكه عنه حتي يفرز عن ملككه بطريقه باذن بالصلوة فيه وأيضا فيها. سئل ابو بكر الاسكاف عمن بني مسجد ا على باب داره ووقف ارضا على عمارته فمات هو وخرب المسجد واستفتٰي ورثته فى بيعها فافتوا بالبيع. وايضا فيها وليس على النساء اذان ولا اقامة فان صلين بجماعة يصلين بغير أذان وإقامة وان صلين جازت بها صلوتهن بها مع الاساءة هكذا فى الخلاصه”
’’اگر کوئی مسجد بنائے تو جب تک اس کو اپنی ملکیت سے خارج نہ کرے اور نماز کی عام اجازت نہ دے وہ اس کی ملکیت میں رہے گی، اگر کوئی شخص اپنے مکان کے دروازے پر مسجد بنائے اور اس زمین کو اپنی عمارت پر وقف کر دے اور مر جائے اور مسجد ویران ہو جائے تو اس کے وارث اس زمین کو بیچ سکتے ہیں، عورتوں کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے اگر وہ جماعت سے نماز پڑھیں تو بغیر اذان اور اقامت کے پڑھیں گی۔ اور اگر وہ نماز پڑھ لیں، تو ان کی نماز کراہت سے ہو جائے گی۔‘‘
نیز یہ کہ غیر عورتیں بلا اذن اس میں جا کر نماز نہیں پڑھ سکتی ہیں۔ واللہ اعلم
(سید محمد نذیر حسین (فتاویٰ نذیریہ ص ۲۱۸ جلد اول)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے