گناہ کے ارادے کا حکم: حدیث قدسی کی روشنی میں وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد: 3 باب: توحید و سنت کے مسائل صفحہ: 86

سوال

اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام کا ارادہ کرے، لیکن کسی وجہ سے وہ اس گناہ کو عملی طور پر نہ کر سکے یا اسے گناہ کرنے کا موقع نہ ملے، تو کیا ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں گناہگار شمار ہوگا؟ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت مطلوب ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال نہایت اہم ہے، اور اس کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ مسلمان اپنے دل و دماغ کو وسوسوں اور گناہ کے ارادوں سے پاک رکھے۔ اس بارے میں ایک متفق علیہ حدیث قدسی کی روشنی میں مکمل وضاحت کی جاتی ہے:

حدیث مبارکہ

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا:

"پس جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر نیکی پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک پوری نیکی (کا ثواب) لکھ دیتا ہے۔ اور اگر وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں دس سے لے کر سات سو گنا یا اس سے زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

اور جو شخص بُرائی کا ارادہ کرتا ہے، لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے۔ پھر اگر وہ اس بُرائی پر عمل کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک بُرائی لکھ دی جاتی ہے۔”

(صحیح بخاری: 6491، صحیح مسلم: 131)

حدیث کا مفہوم

اس صحیح اور متفق علیہ حدیث قدسی سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ:

◈ اگر کوئی شخص گناہ کا صرف ارادہ کرتا ہے، مگر اس پر عمل نہیں کرتا، تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ درج نہیں ہوتا۔
◈ بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتا ہے، بشرطیکہ وہ گناہ کے ارادے سے رک جائے۔
◈ تاہم، اس کے باوجود، برائی کے ارادوں سے بچنا ضروری ہے تاکہ انسان شیطان کے وسوسوں میں آ کر اس گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے۔

وسوسے اور گناہ کے خیالات

اگر کسی انسان کے دل میں کوئی برا خیال یا گناہ کا ارادہ جنم لے یا شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ دل میں پیدا ہو، تو اسے فوراً توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور درج ذیل آیت مبارکہ کی تلاوت کرنی چاہیے:

﴿هُوَ الأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾

(الحدید: 3)

(دیکھیے: سنن ابی داود: 5110، و سندہ حسن)
(تاریخ اشاعت: 9 فروری 2012ء)

نتیجہ

سوال کے جواب میں خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کا ارادہ کرے لیکن وہ اس پر عمل نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا، بلکہ بعض صورتوں میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ تاہم، دل و دماغ کو ہر قسم کے برے خیالات اور ارادوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ یہی ارادے بعض اوقات انسان کو گناہ کے عمل تک لے جاتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے