گمشدہ شوہر کے بعد نکاح کی شرعی اجازت: تفصیلی شرعی رہنمائی
سوال
عرض ہے کہ میرا شوہر گزشتہ آٹھ سال سے لاپتہ ہے۔ وہ نشے کا عادی تھا اور ہمیں کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوچکا ہے۔ اس کے خاندان والوں سے بھی دریافت کیا، لیکن ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ میرے تین چھوٹے بچے ہیں اور ان کی پرورش کے لیے میں دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ براہ کرم مجھے اس سلسلے میں شرعی فتویٰ درکار ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال میں بیان کردہ حالات درست ہیں، تو مسمات شمیم اختر دختر بشیر احمد بٹ شرعی لحاظ سے چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے کے بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد معتبر شرعی دلائل موجود ہیں، جو ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ
روایت:
(وَعَنْ عُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فِي امْرَأَةِ الْمَفْقُودِ تَتَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِينَ ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. أَخْرَجَهُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ)
(۲: سبل السلام شرح بلوغ المرام: جلد ۳ ص ۲۰۷،۲۰۸)
ترجمہ و تشریح:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر لاپتہ ہو جائے اور اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوچکا ہے، تو ایسی عورت چار سال تک انتظار کرے، پھر عدت وفات یعنی چار ماہ دس دن پوری کرے۔ اس کے بعد وہ شرعی طریقے سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
مزید روایت اور تفصیل
(وَلَهُ طُرُقٌ أُخْرَى… فَأَمَرَهَا أَنْ تَرَبَّصَ أَرْبَعَ سِنِينَ… فَخَيَّرَنِي عُمَرُ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّدَاقِ الَّذِي أَصْدَقْتهَا)
(۳: سبل السلام و بلوغ المرام ج۳ ص۲۰۸)
واقعہ:
ایک شخص بیان کرتا ہے کہ جنات نے اسے چار سال تک قید میں رکھا۔ اس دوران اس کی بیوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اپنے شوہر کی گمشدگی کی شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ وہ چار سال انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن کی عدت گزارے اور اس کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ بعد میں جب وہ شخص واپس آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اختیار دیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لے یا اس کا حق مہر وصول کرے۔
عدت کے آغاز کا مسئلہ
اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ عدت کی چار سالہ مدت کب شروع ہوگی:
◈ بعض فقہاء کے مطابق اگر حاکمِ وقت یا شرعی اتھارٹی کی طرف رجوع کے بغیر ہی چار سال مکمل ہو چکے ہوں، تو مزید چار سال انتظار ضروری نہیں۔
◈ اس کے بعد صرف عدت وفات (چار ماہ دس دن) گزارنا کافی ہوگا۔
موطا امام مالک سے روایت
(عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا… تَحِلُّ»)
(۱: فتاویٰ اھل حدیث ج ۲ص ۵۳۸)
تشریح:
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس عورت کا شوہر لاپتہ ہو جائے اور اس کا کچھ پتہ نہ چلے، تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے اور اس کے بعد نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہوگا۔
حافظ محمد عبداللہ روپڑی کا فتویٰ
اگر گمشدگی کو چار سال یا اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہو، تو دوبارہ چار سال کا انتظار ضروری نہیں۔ صرف چار ماہ دس دن کی عدت گزارنی کافی ہوگی۔
(فتاویٰ روپڑیہ (اھلحدیث) ج ۲ ص ۵۳۸)
نان و نفقہ نہ دینے پر تفریق کی حدیث
(وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الرَّجُلِ لَا يَجِدُ مَا يُنْفِقُ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا»)
(۲: رواہ الدار قطنی، نیل الاوطار ج ۶ص ۳۲۱)
تشریح:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو خرچ (نان و نفقہ) مہیا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو ان کے درمیان جدائی کروا دی جائے۔
موجودہ صورت حال پر شرعی فیصلہ
◈ چونکہ سوال کے مطابق شمیم اختر کا شوہر آٹھ برس سے غائب ہے اور اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔
◈ ایسی حالت میں وہ بیوی شرعی طور پر بیوگی کی عدت (چار ماہ دس دن) مکمل کرنے کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
◈ کیونکہ جب صرف نان و نفقہ نہ دینے کی صورت میں جدائی جائز ہے، تو یہاں تو شوہر آٹھ سال سے لاپتہ ہے۔
◈ اس کے بچوں کی پرورش اور مستقبل کے تحفظ کے لیے دوسرا نکاح ایک شرعی ضرورت بھی ہے۔
نوٹ
یہ اجازت مجاز شرعی اتھارٹی سے تصدیق اور اجازت کے بعد دی جائے گی، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کے فتاویٰ سے واضح ہے۔
مفتی کسی قسم کی قانونی یا عدالتی پیچیدگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب