ناموسِ رسالت ﷺ کے حوالے سے شرعی رہنمائی
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ڈنمارک اور ناروے کے حکمرانوں کا یہ کہنا کہ قرآن انسانی قتل سے منع کرتا ہے اور گستاخانہ خاکے بنانے والوں کے قتل کا مطالبہ قرآن کے احکام سے مطابقت نہیں رکھتا، بالکل بے بنیاد اور حقیقت کے خلاف ہے۔ قرآن پاک بلاشبہ ناحق انسانی قتل سے سختی کے ساتھ روکتا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے قانونِ قصاص بھی وضع کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے فرمایا:
﴿وَلَكُم فِي القِصاصِ حَياةٌ يا أُولِي الأَلبابِ﴾
یہ حکم مطلق نہیں بلکہ مشروط ہے۔ یعنی جب کوئی شخص قرآن کی توہین کرے، اس کے حامل کی گستاخی کرے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچائے یا دین اسلام پر طعنہ زنی کرے تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں واجب القتل ہے۔ ائمہ کفر، معاندین اسلام اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ ﷺ کے گستاخین کو قرآن نے مباح الدم اور واجب القتل قرار دیا ہے۔ یہاں صرف بطورِ دلیل دو آیات ذکر کی جاتی ہیں:
﴿وَإِن نَكَثوا أَيمـنَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم وَطَعَنوا فى دينِكُم فَقـتِلوا أَئِمَّةَ الكُفرِ إِنَّهُم لا أَيمـنَ لَهُم لَعَلَّهُم يَنتَهونَ ﴿١٢﴾… سورة التوبة﴾
یعنی "اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو ان سردارانِ کفر سے جنگ کرو۔ ان کی قسمیں بے حقیقت ہیں، شاید کہ وہ باز آجائیں۔”
امام المفسرین ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اى عابوه انتقصوه ومن ههنا اخذ قتل من سب الرسول اللهﷺ او من طعن فى دين الاسلام او ذكره تنقص. (تفسير ابن كثير، سورة التوبة: 12، ص 346)
یعنی جب کفار کے سردار دینِ اسلام میں عیب چینی اور تنقیص کریں تو ان سے قتال کیا جائے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کو گالی دے، اسلام پر طعن کرے یا اس میں نقص نکالے، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت، مشرقی ہو یا مغربی، حکمران ہو یا عام شخص—سب کے سب واجب القتل اور مباح الدم ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوةَ وَءاتَوُا الزَّكوةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٥﴾… سورة التوبة﴾
"پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو۔”
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اى من الارض وهذا عام المشهور تخصيصة بتحريم القتال فى الحرم. (تفسير ابن كثير، ج2، ص 343)
یعنی حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد مشرکین کو جہاں بھی پاؤ، قتل کرنے میں دریغ نہ کرو، سوائے مسجد حرام کے، جب تک کہ وہ وہاں قتال نہ کریں۔
امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے صرف میدانِ جنگ میں لڑنا کافی نہیں، بلکہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کو قتل کیا جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ذمی شخص دین اسلام میں طعن کرے تو اس کا عہدِ ذمہ ختم ہو جاتا ہے اور اس سے جنگ واجب ہو جاتی ہے۔ اور سب سے بڑا طعن رسول اللہ ﷺ کو گالی دینا ہے، کیونکہ اس سے شریعت کی توہین اور اسلام کی ہتک ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان الذمي اذا سب الرسول او سب الله او عاب الإسلام علانية فقد نكث يمينه وطعن في ديننا لأنه لاخلاف بين المسلمين وانه يعاقب على ذلك ويؤدب عليه. (الصارم المسلول، ص16)
یعنی اگر کوئی ذمی اللہ یا رسول اللہ ﷺ کو گالی دے یا علانیہ اسلام پر اعتراض کرے تو اس نے اپنا عہد توڑ دیا اور دین میں طعن کیا، لہٰذا بلااختلاف اس کو سزا دی جائے گی۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے سے عہد ٹوٹ جاتا ہے اور اس صورت میں ذمی واجب القتل ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيها تعيين قتل الساب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وأن قتله حد لا بد من استيفائه… (زاد المعاد، ج3، ص 439)
یعنی رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والے کا قتل واجب ہے اور یہ محض تعزیر نہیں بلکہ حد ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مقیس بن ضبابہ، ابن خَطل اور ان دو لونڈیوں کو قتل کروا دیا جو ہجو کیا کرتی تھیں۔
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے:
عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة. (صحیح بخاری، ج1، ص 8)
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔”
یہاں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گستاخِ رسول ﷺ واجب القتل ہے اور اس کے قتل پر کسی قسم کا قصاص نہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
هذا اجماع من خلفاء الراشدين ولا يعلم لهم فى الصحابة مخالف. (زاد المعاد، ج3، ص 440)
یعنی خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ گستاخِ رسول ﷺ واجب القتل ہے اور اس پر کوئی اختلاف نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں وضاحت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارک کی توہین کرنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت، بالاتفاق واجب القتل ہے۔ یہی فتویٰ ائمہ اربعہ (امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) اور دیگر ائمہ کا بھی ہے۔
لہٰذا قرآن و سنت، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، ائمہ اربعہ اور سلف و خلف کے اجماع سے یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ یا دین اسلام کی توہین کرنے والا اور گستاخانہ خاکے بنانے والا شخص واجب القتل اور مباح الدم ہے۔ ایسے شخص کو توبہ کا موقع دینا بھی ضروری نہیں، جیسا کہ محققین علماء نے ذکر کیا ہے۔ اس لیے ڈنمارک اور ناروے کے حکمرانوں کا یہ دعویٰ کہ قرآن مطلق قتل کے خلاف ہے، سراسر گمراہ کن اور غلط ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب