گاڑی آنے پر نماز توڑنے کا حکم اور دوبارہ پڑھنے کی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص555

سوال

ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے، اسی دوران گاڑی آ گئی جس پر اسے سوار ہونا ہے۔ کیا وہ شخص نماز چھوڑ سکتا ہے؟ اور اگر چھوڑ دے تو کیا اسے پوری نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی یا جتنی باقی رہ گئی ہے صرف وہی پڑھنی ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں، وہ نماز چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اکیلا فرض نماز پڑھ رہا ہو اور اسی دوران جماعت کے لئے اقامت کہہ دی جائے، تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی نماز چھوڑ کر جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت کی نماز، اکیلے کی نماز سے افضل ہے۔

اسی طرح جب گاڑی آ جائے تو اس وقت جو نماز وہ پڑھ رہا ہوگا وہ اضطراب اور بے قراری والی نماز ہوگی۔ لیکن اگر وہ گاڑی پر سوار ہونے کے بعد نماز پڑھے گا تو وہ سکون اور اطمینان والی نماز ہوگی، اور ظاہر ہے کہ سکون والی نماز، افراتفری والی نماز سے افضل ہے۔

اسی بنیاد پر حکم یہ ہے کہ نماز توڑ کر گاڑی پر سوار ہو جائے اور بعد میں تسلی و اطمینان کے ساتھ پوری نماز دوبارہ پڑھے۔ پہلی نماز پر بنا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے، لہٰذا اسے شروع سے مکمل نماز دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔

یہی فتویٰ محدث عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے