کیا یہ سچ ہے کہ شیطان کھڑے ہو کر کھاتا پیتا ہے ؟
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

101۔ کیا شیطان آدمی کو بہکانے کے لیے قبر میں بھی آتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں ایک جنازے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میت کو قبر میں رکھا تو کہا:
باسم الله، وفي سبيل الله، وعلى ملة رسول الله، فلما أخذ فى تسوية اللبن على اللحد، قال: اللهم أجرها من الشيطان، ومن عذاب القبر، اللهم جاف الأرض عن جنبيها، وصعد روحها ولقها من رضوانا
”اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے راستے میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق (قبر میں اتار رہا ہوں) اس کے بعد جب قبر پر ( کچی) اینٹیں برابر کرنے لگے تو کہا: اے اللہ! اسے شیطان اور عذاب قبر سے پناہ دے۔ اے اللہ! اس کی دونوں اطراف سے زمین کو کشادہ کر۔ اس کی روح کو (علیین) میں اٹھا اور اس کو اپنی رضامندی نصیب کر۔ “ میں (سعید بن مسیب) نے کہا: کیا یہ آپ نے اللہ کے رسول کو کہتے ہوئے سنا یا اپنی مرضی سے کہا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ایسے کلمات کہہ سکتا ہوں (اپنی مرضی سے)؟ لیکن میں نے یہ کلمات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔ [سنن الترمذي، رقم الحديث 323 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1553 سنن البيهقي 55/2]
——————

102۔ کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں،
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
”جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [ الناس: 6 ]
ابو سلام سے مروی ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا :
يا رسول الله إنا كنا بشر فجاء الله بخير، فنحن فيه فهل من وراء هذا الخير ؟ قال: نعم لث: هل وراء ذلك الشر خير؟ قال: نعم قلت: فهل وراء ذلك الخير شر ؟ قال: نعم قلت: كيف؟ قال: يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي، وسيقوم فيهم رجال، قلوبهم قلوب الشياطين فى جثمان إنس قال: قلت: كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك؟ قال: تسمع وتطيع يوير، وإن ضرب ظهرك وأبي مالك اسمع وأطع
”اے اللہ کے رسول ! ہم برائی (شرک) میں مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے بھلائی (ہدایت عطا کی ہے۔ آج ہم بھلائی میں ہیں، تو کیا بھلائی کے بعد شر ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد بھلائی ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں نے پوچھا: وہ شر کیسے ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ایسے ائمہ آئیں گے، جو میرے طریقے سے راہنمائی حاصل نہیں کریں گے اور نہ میری سنت کو اختیار کریں گے، ان میں ایسے لوگ ہوں گے کہ ان کے دل انسانی اجسام میں شیاطین کے دلوں کی طرح ہوں گے۔‘‘ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! اگر میری زندگی میں وہ وقت آ جائے تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، اگرچہ تجھ کو کوڑے لگائے جائیں اور تیرا مال چھین لیا جائے، پھر بھی امیر کی اطاعت کرنا اور اس کی بات ماننا۔“ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 3435 ]
یعنی امیر کی اطاعت وسمع سے روگردانی نہ کرنا، ہر حال میں اس کی اطاعت تجھ پر لازم ہے۔
اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے جسم تو انسانی ہوں گے مگر دل شیطانی ہوں گے، جس سے معلوم ہوا کہ انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے :
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ
” اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔“ [الأنعام: 121]
انسانوں میں سے کچھ برے دوست ہوتے ہیں، وہ حق کی قوت کو کمزور کرتے اور کہتے ہیں: ان خوبصورت لڑکیوں کی طرف دیکھ تو سہی، انٹرنیٹ کو کھول کر لطف اندوز ہو، سودی کاروبار کر، تا کہ تیرا مال زیادہ ہو جائے، ایسے لوگ جن شیاطین سے بھی کہیں زیادہ برے ہیں۔
——————

103۔ کیا یہ سچ ہے کہ شیطان کھڑے ہو کر کھاتا پیتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
ابوہریره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
لا يشربن أحد منم قاما، فمن نسي فليستقئي
”تم میں سے کوئی بندہ ہرگز کھڑا ہو کر نہ پیے جو (بیٹھ کر پینا ) بھول جائے اور کھڑا ہو کر پی لے تو وہ قے کر دے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن يشرب الرجل قائما
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع کیا ہے۔ “
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا : ( کھڑے ہو کر پینے کی تو ممانعت ہے) تو کھڑے ہو کر کھانا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ذاك أشر أو أخبث
”وہ ( کھڑے ہو کر کھانا ) تو اس سے بھی زیادہ برا یا زیادہ ناپاک عمل ہے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2024]
نوٹ: کھڑے ہو کر پینے کا جواز ہے، مگر بیٹھ کر پینا افضل ہے۔
الحاصل جمہور علما بغیر کسی ضرورت کے کھڑے ہو کر کھانا پینا مکروہ سمجھتے ہیں اور سنت یہ ہے کہ انسان بیٹھ کر کھائے پیے، تاکہ کھڑے ہو کر کھانے پینے والا شیطان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گناہ گار نہ ہو۔ حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
من تشبه بقوم فهو منهم
” جس نے کسی قوم سے مشابہت کی تو وہ انھی میں سے ہے۔ “ [سنن ابي داود، رقم الحديث 4031]
کھانے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اس نیت سے کھائے کہ عبادت کے لیے قوت ملے، بسم اللہ پڑھ کر، دائیں ہاتھ سے اور دیکھ کر کھائے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾
”تو انسان کو لازم ہے کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھے۔ “ [عبس: 24]
اپنے سامنے سے کھائے۔ پلیٹ کے درمیان سے اور سیر ہو کر نہ کھائے اور کھانے کے بعد الحمد للہ پڑھے۔
——————

104۔ جب لقمہ گر جائے تو مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیا شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ؟
جواب :
جب لقمہ گر جائے تو اٹھا کر صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
مسلم شریف کی روایت ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
إذا وقعت لقمة أحدكم فليأخذها فليمط ما كان بها من أذى وليأكلها، ولا يدعها للشيطان، ولا يمسح يده بالمنديل حتى يلعق أصابعه، فإنه لا يدري فى أى طعايير البركة
”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس کو اٹھا کر اس کے ساتھ لگی مٹی وغیرہ کو صاف کر کے کھا لے اور شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور انگلیاں چاٹنے سے قبل رومال کے ساتھ صاف نہ کرے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس ذرے میں برکت رکھی گئی ہے۔ “
صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت ہے :
إن الشيطان يحضر أحدكم عند كل شيء من شأنه حتى يحضره عند طعامه، فإذا سقطت من أحدكم اللقمة فليمط ما كان بها من أذى ثم ليأكلها ولا يدعها للشيطان
”شیطان بندے کے ہر کام کے وقت ہی آ جاتا ہے، حتی کہ کھانا كهانے كے وقت بھی، لہٰذا جب کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اٹھا کر اس کے ساتھ لگی مٹی وغیرہ صاف کرنے کے بعد کھا لے اور شیظان کے لیے پڑا نہ رہنے دے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 182]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لا تأكلو بالشمال، فإن الشيطان يأكل ويشرب بشماله
”بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 183 ]
——————

105۔ کیا فقر کا خوف شیطان دلاتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
الله تعالیٰ فرماتے ہیں :
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾
’’شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمھیں شرمناک بات کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اورفضل کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ [البقرة: 268]
یعنی تمھارے دلوں میں فقیر ہو جانے کا ڈر ڈال دیتا ہے، تا کہ جو تمھارے پاس مال و دولت ہے، اس کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ نہ کرو۔
وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ یعنی محتاجی کے ڈر سے دولت خرچ کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ وہ معاصی، گناہ، حرام کام اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت کا حکم دیتا ہے۔
اس بنا پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کی بات مان لیتا ہے تو یہ محتاجی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ بخیل آدمی جو مال کو فی سبیل اللہ خرچ نہیں کرتا، فرشتہ اس کے مال کے لیے جو اس نے بخیلی کی وجہ سے جمع کیا ہوتا ہے، تلف ہو جانے کی بددعا کرتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ فرشتہ کہتا ہے :
اللهم أعط منفقا خلفا، وأعط ممسكا تلفا
”اے اللہ! خرچ کرنے والے کو مزید عطا کر اور خرچ نہ کرنے والے کے مال کو ہلاک کر دے۔ “ [ صحيح بخاري، رقم الحديث 1374، صحيح مسلم، رقم الحديث 1010 ]
جو لوگ اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، قرآن کہتا ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہیں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾
اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔ [الحشر: 09 ]
——————

106۔ کیا شیطان دل میں گناہ کا خیال ڈالتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إن للشيطان لمة بابن آدم، و للملك لمة، فاما لمة الشيطان فإيعاد بالشر و تكذيب بالحق، و أما لمة الملك فإيعاد بالخير و تصديق بالحق، فمن وجد ذلك فليعلم أنه من الله فليحمد الله، ومن وجد الأخرى فليتعود بالله من الشيطان الرجيم، ثم يقرأ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ [ البقرة: 268 ]
”شیطان بھی اور فرشتے بھی دل میں خیالات ڈالتا ہے، شیطانی خیالات یہ ہیں کہ وہ حق کو جھٹلانے اور شر کا وعدہ دلاتا ہے اور فرشتہ بھلائی اور حق کی تصدیق کا، جو (حق کی تصدیق اور بھلائی کا) یہ خیال محسوں کرے، وہ سمجھ لے کہ یہ خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جو دل میں دوسرا (برائی اور تکذیب حق کا ) خیال محسوس کرے۔ وہ سمجھ لے کہ یہ خیال شیطان دل میں ڈال رہا ہے تو وہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھے۔ “
پھر آپ بطور استشهاد قرآن کی یہ آیت پڑھتے: الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمھیں شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے۔ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2988 ]
مذکورہ بالا حدیث میں لفظ اللمة ، سے مراد دل میں پیدا ہونے والا ارادہ اور خیال ہے۔ اگر تو وہ خیر و بھلائی کا ارادہ ہو تو وہ فرشتے کی طرف سے ہے اور اگر وہ برائی کا خیال ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔
——————

107۔ کیا جمائی شیطان کی وجہ سے آتی ہے ؟
جواب :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله يحب العطاس، ويكره التثاؤب، فإذا عطس أحدكم وحمد الله تعالى، كان حقا على كل مسلم سمعه أن يقول له: يرحمك الله، و أما التثاؤب فإنما هو من الشيطان، فإن تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع، فإن أحدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان
”یقيناً الله تعالی چھینک کو پسند اور بھائی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب کوئی بنده چھینک مار کر الحمد لله کہے تو ہر مسلمان پر، جس نے اس کو سنا، لازم ہے کہ وہ يرحمك الله کہے۔ لیکن جمائی شیطان کی وجہ سے آتی ہے (یعنی شیطان انسان کو سستی دلاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جمائیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں) جب کسی کو جمائی آئے تو وہ حتی المقدور اس کو روکے کیونکہ جب کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا (خوش ہوتا) ہے۔ “ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 5872 ]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ بے شک نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
التثاؤب من الشيطان، فإذا تثاءب أحدكم فليكظم ما استطاع
”جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے، جب کسی کو جمائی آئے تو وہ بہ قدر استطاعت اسے روک لے۔ “ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 2994]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا تثاءب أحدكم فليمسك بيده على فيه فإن الشيطان يدخل
”جب کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر رکھ کر جمائی کو روک لے، کیونکہ (ایسا نہ کرنے کی وجہ سے) شیطان منہ میں داخل ہو جا تا ہے۔ “ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 2995 ]
——————

108۔ کیا شراب نوشی ( کی نوبت) شیطان کی وجہ سے ہوتی ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾
”اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو۔“ [ المائدة: 91 , 90]
اس سے معلوم ہوا کہ شراب نوشی کی نوبت شیطان کے بہکاوے کی وجہ سے آتی ہے۔ یعنی وہ اس کو مزین کر کے برائی کو بھلائی کی صورت میں پیش کرتا ہے، جب کہ بھلائی کو تشدد اور سختی ظاہر کرتا ہے۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین
——————

109۔ کیا شیطان غیر اللہ کے لیے ذبح کا حکم دیتا ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴿١٢١﴾
”اور اس میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور بلاشبہ یہ یقیناً سراسر نافرمانی ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو بلاشبہ تم یقیناً مشرک ہو۔“ [الأنعام: 121]
اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ اگر جانور اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو تو وہ حلال نہیں، اگرچہ ذبح کرنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
شیطان اپنے دوستوں سے کہتے ہیں: جسے اللہ مار دے تم وہ نہیں کھاتے اور جسے خود ذبح کرو وہ کھا لیتے ہو؟ یقیناً تم تو مشرک ہوگئے ہو۔ کیوں کہ تم نے اللہ کے حکم کو اس کے بندوں کی طرف پھیر دیا ہے۔
——————

110۔ کیا فضول خرچی شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿٢٧﴾
”بے شک بے جا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔‘‘ [ الإسراء: 27 ]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”تبذیر ناجائز کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ “
ایک دوسرا قول ہے کہ تبذیر بے وقوفی، الله تعالیٰ کی عدم اطاعت اور معصیت کا ارتکاب کرنے کو کہتے ہیں۔
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: