حفیظ الرحمن بریلوی قادری کے دلائل کے ترتیب وار جوابات
① کیا یا رسول اللہ کہنا شرک ہے؟
لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میرے پاس ایک بندہ آیا کہ جو بڑا پریشان حال تھا کہنے لگا حافظ صاحب رات میں نے اذان سے پہلے درود و سلام الصلوة والسلام عليك يا رسول الله پڑھا تو ایک بندے نے کہا تو مشرک ہو گیا۔ تیرے اعمال برباد ہو گئے میں ساری رات پریشان رہا اب مجھے کیا کرنا چاہیے کیونکہ اس کو کسی نے بتایا تھا کہ حرف یا صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور کسی کے ساتھ استعمال کرو گے تو مشرک ہو جاؤ گے حفیظ الرحمن قادری صاحب یہ خود ساختہ کہانی لکھنے کے بعد ”یا“ کے قرآن سے دلائل پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ21/ الانبياء: 69
اور ہم نے فرمایا اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی والی ابراہیم پر۔
دوسری دلیل قیامت کے روز سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمود پر جلوہ افروز ہونگے امت کی شفاعت کے لیے سجدہ ریز ہو جائیں گے پھر رب العالمین فرمائے گا۔
يا محمد ارفع راسك سل تعط وشفع مسند احمد
کتاب شرک کیا ہے صفحہ 25 26
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپناسر اقدس اٹھائے جو مانگیں گے عطا کیا جائے گا جسکی شفاعت کریں گے قبول کی جائے گی۔
✔ الجواب
کہنے والا پریشان ہونے والا کون تھا جس کا کوئی اتا پتہ نہیں دوسری بات یہ کہ اذان سے پہلے الصلوة والسلام عليك يا رسول الله پڑھنا کس حدیث سے ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کس مؤذن نے یہ کام اذان سے پہلے شروع کیا اس کا ثبوت پیش کیا جائے نیز حدیث کی کس کتاب میں اس کا حوالہ موجود ہے براہِ کرم حفیظ الرحمن قادری صاحب سے پوچھ کر ہمیں بھی بتائیں تا کہ ہم بھی اس کارخیر سے محروم نہ رہیں ۔ اگر یہ مسئلہ خود ساختہ ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اگر یہ کام محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی علامت ہے تو یہ بھی بتائیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یہ کام انہوں نے پوری زندگی میں کیوں نہیں کیا اگر کیا ہے تو دلیل پیش کریں وگرنہ ان خود
ساختہ مسائل کو لوگوں میں پھیلانے سے اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور بدعات سے توبہ کریں۔
دوسری بات کہ یا صرف صرف اللہ کے لیے خاص ہے یہ بات کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے۔ یا قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر موجود ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تمام نبیوں اور رسولوں سے خطاب کرتے وقت ان کے ذاتی ناموں سے ہی خطاب کیا جیسے آدم علیہ السلام کے لیے یا ادم (2 / البقرہ:33) اے آدم کہا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے لیے یا نوح (11/ ہود : 46) اے نوح کہا۔ ابراہیم علیہ السلام کے لیے یا ابراهیم (11/ ہود : 76 ، 37/ الصافات (104) اے ابراہیم کہا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے یا موسیٰ (آیت 11، 17، 19 سورۃ طہ آیت 19، القصص آیت 31) اے موسیٰ کہا ۔ حضرت ذکریا علیہ السلام ( سورہ مریم آیت 7 اے زکریا کہا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے یا یحییٰ سورہ مریم آیت 12 اے یحییٰ کہا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے یا داؤد کہا۔ سورۃ ص آیت 17 اے داؤد کہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے یا عیسیٰ سورہ آل عمران آیت 55 سورہ المائدہ آیت 116 اے عیسیٰ کہا۔
لیکن جب سید المرسلین خاتم النبیین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب بھی اللہ تعالیٰ نے خطاب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے آپ کے صفاتی ناموں سے ہی خطاب کیا جسے يا ايها الرسول سورۃ المائدہ 67 اے رسول کہا۔ يا ايها النبى سورۃ الاحزاب آیت 59،50،45،28 الطلاق آیت 1، التحریم آیت 1 اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا۔ ياايها المدثر کہا کہیں يا ايها المزمل کہا۔
حضرات گرامی غور فرمائیں آپ شروع سے لے کر آخر تک پورا قرآن مجید پڑھ جائے آپ کو پورے قرآن سے ایک آیت بھی ایسی نہ ملے گی جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا احمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر کلام یا خطاب کیا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہو جانے کے بعد مخاطب ہو کر پکارنا عقل کے خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی یا محمد کہہ کر پکارنے سے منع کیا گیا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَآءِ ٱلْحُجُرَٰتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا۟ حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًۭا لَّهُمْۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ49/ الحجرات: 4 – 5
بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان
کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنز الایمان احمد رضا خان بریلوی صفحہ 668
شان نزول حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ دیہاتی لوگ اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ اس شخص کے پاس چلو جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ نبی ہے تو اس سے سعادت حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ مستحق ہم ہیں اگر وہ بادشاہ بننا چاہتا ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سب کچھ بیان کر دیا جو کچھ انہوں نے کہا تھا پھر وہ لوگ آئے اور حجروں کے پیچھے کھڑے ہو کر یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ بیشک وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پکارتے ہیں اکثر بے عقل ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا: اے زید رضی اللہ عنہ اللہ تعالی نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی۔
اس واقعہ کو بہت سارے جید مفسرین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
تفسير جامع البيان في تفسير القرآن، ج 26 ، ص: 70، تفسير ابن كثير ، ج 5 ، صفحه : 76
اہل ایمان غور فرمائیں کہ لمحہ فکر یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں زندہ موجود اپنے گھر میں آرام فرما رہے تھے تو جن لوگوں نے لاعلمی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر بلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی زبردست مذمت فرمائی اور اظہار ناراضگی فرماتے ہوئے ان کو بے عقل اور بے وقوف قرار دیا اور آئندہ کے لیے اس بے ادبی سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ اب جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر بلائیں اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آئیں بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کہتے اور لکھتے چلے جائیں تو ان لوگوں کے بے عقل و بے وقوف اور بے ادب وغیرہ ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
اگر ہماری باتوں پر یقین نہ آئے تو آپ کی تسلی کے لیے آپ کے اکابر علماء ومفسرین کرام ومفتیان کے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین و ناظرین کرتے ہیں شاید کے اتر جائے ان کے دل میں ان کی بات۔
حق بات جانتے ہیں مگر مانتے نہیں
ضد ہے جناب شیخ تقدس مآب میں
◈ بریلویوں کے امام احمد رضا خان بریلوی کا فتویٰ:
یہاں اس کا یہ بندوبست فرمایا کہ اس امت مرحومہ پر اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک لے کر خطاب کرنا ہی حرام ٹھہرایا :
قال الله تعالىٰ لَا تَجْعَلُوا۟ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًۭا
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پکارنا آپس میں ایسا نہ ٹھہراو جیسا ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہ :اے زید اے عمربلکہ یوں عرض کرو:
يا رسول الله يا نبي الله يا سيد المرسلين يا خاتم النبيين يا شفيع المذنبين صلى الله عليه وسلم وعلى الك اجمعين
ابونعیم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر کے راوی ہیں۔
قال كانو يقولون يا محمد يا ابا القاسم فنهاهم الله عن ذلك اعظاما لينيه صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا يانبي الله يا رسول الله
یعنی یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا ابا القاسم کہا جاتا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے انہیں منع فرمایا جب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یا نبی اللہ یا رسول اللہ کہا کرتے تھے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ امام علقمہ رحمہ اللہ ، امام اسود رحمہ اللہ ، ابو نعیم رحمہ اللہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ ، امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ تفسیر آیت کریم مذکورہ میں راوی :
لا تقولوا يا محمد والكن قولوا يا رسول الله يا نبي الله یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا محمد نہ کہو بلکہ یا نبی اللہ یا رسول اللہ کہو اسی طرح امام قتادہ رحمہ اللہ تلمیذ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر نداء کرنی حرام ہے اور واقعی محل انصاف ہے جسے اس کا مالک مولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہ ادب سے تجاوز کرے بلکہ امام زین الدین مراغی رحمہ اللہ وغیرہ محققین نے فرمایا اگر یہ لفظ کسی دعاء میں وارد ہو جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی جیسے يا محمد اني توجهت بك الى ربي تا ہم اس جگہ یا نبی اللہ یا رسول اللہ کہنا چاہیے حالانکہ دعا میں حتی الوسع تغیر نہیں کی جاتی۔
تجلی الیقین، ص: 36-37
◈بریلویوں کے حکیم الامت مولوی احمد یار خان نعیمی کا فتویٰ:
حضور علیہ السلام کو یا محمد کہ کر یا اے ابراہیم کے باپ اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے اگر اہانت کی نیت سے پکارا تو کافر ہے۔
جاء الحق ص 164 مطبوعہ فرید بکڈ یو نیا محل اردو مارکیٹ جامع مسجد دیلی
◈مولانا نور محمد قادری بریلوی کا فتوی:
امت پر واجب ہے کہ اپنے پیارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کریم کی عزت وادب واحترام کریں کیوں کہ خود رب کریم ہم کو ان کے نام کے ادب و احترام کا حکم دیتا ہے۔
لَا تَجْعَلُوا۟ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًا24/ النور: 63
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا نہ پکارو جیسا کہ ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔
یعنی میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محترم کو یا محمد یا احمد مت کہو بلکہ یا رسول اللہ یا نبی اللہ یا حبیب اللہ اوصاف جمیلہ اور عمدہ القاب سے آپ کو یاد کرو خود رب العزت جل و علا نے اپنے حبیب پاک کو اچھے سے بلایا کہیں فرمایا: يا ايها الرسول کہیں فرمایا يا ايها النبي کہیں فرمایا يا ايها المزمل يا ايها المدثر
مواعظ رضویہ حصہ چہارم ص 162 بحوالہ ندائے یا محد کی تحقیق ص 113
◈مولانا محمد صالح نقشبندی قادری چشتی کا فتوی:
مختصر پہلے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد یا ابا القاسم یعنی بحسب عرف نام وکنیت کے ساتھ کہہ کر بلاتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تعظیم کی خاطر نام سے پکارنے کو منع فرمایا تب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یا نبی اللہ یا رسول اللہ کہنا شروع کیا مقصود یہ ہے کہ عجز و نیاز کے ساتھ پکارا کریں جس سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم ظاہر ہو۔
منهاج القبول في آداب الرسول صفحہ 4948
◈مولانا افتخار احمد قادری بریلوی کا فتوی:
لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد یا محمد کہ کر پکارنے والوں کی رب العزت مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”یقینا جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر عقل نہیں رکھتے اگر وہ اتنا صبر کرتے کہ آپ باہر نکلتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔“ 49/ الحجرات: 4-5
قبیلہ بنی تمیم کا ایک وفد عین دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکان شریف کے اندر آرام فرما رہے تھے۔ انہوں نے حجروں کے باہر سے یا محمد یا محمد کہہ کر پکارنا شروع کر دیا حضور باہر تشریف لائے مگر خدائے تعالیٰ نے اپنے محبوب کی ایسی بے ادبی گوارا نہ فرمائی اور ایسا سخت حکم نازل فرمایا کہ ایسا کرنے والے بے عقل ہیں اور پھر ادب کی تعلیم دی کہ جب لوگ در دولت پر پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز نہ دیں اور آپ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کریں رب تعالیٰ ایک مقام پر اپنے محبوب کا ادب اس طرح ارشاد فرما رہا ہے تو رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہراؤ جیسا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔
مقدمہ صحابہ کا عشق رسول صفحہ 20
◈علامہ سید محمود احمد رضوی بریلوی کا فتوی:
لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عام لوگوں کی طرح پکارنا حرام ہے۔ کہ زیر عنوان رقم طراز ہیں کہ :
”رسول کریم کو ایسے نہ مخاطب کرو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔“
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتداء میں لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد یا ابا القاسم کے الفاظ سے پکارا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تعظیم و توقیر کے لیے اس طرح پکارنے سے منع فرمایا تب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یا رسول الله يا نبي الله سے خطاب کرنے لگے اس آیت سے واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر نداء کرنی یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریر و تقریر میں عام انسانوں کی طرح ذکر کرنا ممنوع و حرام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا جائے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو عظمت و احترام کے ساتھ معزز القابات سے آپ کا ذکر کرنا لازم و واجب ہے۔
مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم صفحه 8
◈مولانا محمد شفیع اوکاڑوی بریلوی کا فتویٰ:
فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو حکم دیا کہ پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہراؤ کہ تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے یعنی جب آپ کو پکارا جائے توقیر سے عام لوگوں کی طرح ذاتی نام سے یا محمد سے یا احد کہ کر نہ پکارا جائے بلکہ ادب و تکریم اور توقیر تعظیم کے ساتھ یا نبی اللہ یا رسول اللہ یا حبیب اللہ وغیرہ کہہ کر پکارا جائے۔
الذکر الجمیل صفحه 31 حوالہ برائے یا محمد کی تحقیق صفحہ 123
تمام حوالہ جات کا خلاصہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر پکارنا بے ادبی اور گستاخی ہے۔
➋ شروع میں لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو یا محمد کہہ دیا کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس طرح پکارنے سے منع فرما دیا اور اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے ترک کر دیا تھا۔
➌ مذکورہ حوالہ جات میں یہ بھی ذکر ہوا کہ دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا جائے کیونکہ جب ممانعت کا حکم نازل ہوا اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے پیچھے سے آواز دی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ صبر کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو پھر پکارتے لیکن ہمیں بھی غور کرنا چاہیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سینکڑوں سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد یا محمد کہہ کر پکارتے ہیں کیا ہم عقل مند ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب یا محمد کہیں گے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوں گے یہ پکارنا غائبانہ نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی مالک ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خالق ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو یا رسول اللہ کہا کرتے تھے اصل اختلاف غائبانہ طور پر پکارنے میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غائبانہ طور پر خطاب کے لیے یا رسول کا استعمال نہیں کرتے تھے۔
② غائبانہ پکارنے پر بریلوی دلائل
حفیظ الرحمن قادری صاحب نے غائبانہ پکارنے کی دلیل پیش کی کہتے ہیں کہ اگر دور سے پکارنا شرک ہے تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی شریف میں دورانِ خطبہ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو پکار کر کہا تھا۔ يا سارية الى الجبل اے ساریہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہو ۔ جب کہ ساریہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہ تھے بلکہ نہاوند کے مقام پر فوج کی سربراہی فرمارہے تھے۔
مشکوۃ صفحه 546
✔ الجواب :
پہلا جواب یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے حدیث نبوی نہیں۔
دوسرا جواب یہ واقعہ اپنی تمام اسانید سمیت ضعیف اور نا قابل حجت ہے اسکی تفصیل یہ ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ 3/ 5 میں بیان کیا ہے ابن وہب رحمہ اللہ عن ایوب بن ایوب رحمہ اللہ عن ابن عجلان رحمہ اللہ عن نافع رحمہ اللہ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے یہ سند دو بڑی علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔
محمد بن عجلان رحمہ اللہ صدوق ہونے کے باوجود مدلس ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین صفحہ 44 رقم 98 میں حافظ علائی رحمہ اللہ نے جامع التحصیل ص 109 وغیرہ میں ذکر کیا ہے اور اُصول حدیث میں یہ قاعدہ مقدر ہے کہ مدلس راوی کا عن کے لفظ سے روایت کرنا صحت حدیث میں قادح ہے کہ جب تک وہ سمعت اخبرنا حدثنا جیسے الفاظ سے سماع کی تصریح نہ کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع نہ ملے امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المہذب ج 212/6 میں ذکر کیا ہے کہ مدلس راوی جب عن سے روایت بیان کرے تو بالا اتفاق حجت نہیں ہوتا یہ بات بریلوی علماء کو بھی مسلِم ہے امام البریلویہ مولوی احمد رضا صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مردود دونا مستند ہے۔
فتاوی رضویہ ج 5 / 245 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور
مولوی محمد عباس رضوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مدلس کا عنعنہ بالا اتفاق مردود ہے۔ تدلیس جرح اور جس سے ثابت ہو جائے کہ وہ تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت کو مطلقاً قبول نہیں کیا جائے گا۔
واللہ آپ زندہ ہیں صفحہ 351
لہذا فریقین کے مسلمہ اصول کی بنا پر یہ روایت محمد بن عجلان رحمہ اللہ کے تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دوسری بڑی علت اس میں یہ ہے کہ محمد بن عجلان رحمہ اللہ نافع رحمہ اللہ سے روایت بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ تہذیب التہذیب ج 5 صفحہ 1220، الضعفاء الکبیر 117 اور اسکی یہ روایت نافع رحمہ اللہ سے ہی ہے لہذا سند حجت نہیں۔
ابن عجلان رحمہ اللہ حدثنی ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ بن قرة دلائل النبوۃ ج 6 صفحه 370 شرح اصول اعتقاد اہل سنۃ والجماعۃ 1330/5 یہ روایت مرسل ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مرسل روایت کو جماہیر نقاد نے سند میں ساقط راوی کی جہانت کی وجہ سے رد کیا ہے۔ الفیہ العراقی بشرح فتح الباقی صفحہ 133
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے اور روایات کو جاننے والوں کے اصل قول میں حجت نہیں۔ مقدمہ صحیح مسلم صفحہ 114 ، 118
لہذا یہ روایات مرسل ہونے کی وجہ سے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں حجت نہیں ہے علامہ ابن الاثیر جزری رحمہ اللہ نے فرات بن السائب رحمہ اللہ عن میمون بن مہران عن ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طریق سے اسد الغابہ ج 380/2 میں روایت کیا ہے۔
اس کے بارے امام بخاری رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ محض ضعیف ہے امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف الحدیث قرار دیا ہے ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی روایات غیر محفوظ ہیں۔ اور میمون رحمہ اللہ سے اس کی روایات منکر ہیں۔
میزان الاعتدال 1391/3 المغنی فی الضعفاء ج 2/ 185؛ الجرح والتعدیل ج 1355/8 الکامل لابن عدی ج 3050/3
اور اس کی یہ روایت میمون بن مہران رحمہ اللہ سے ہی ہے لہذا منکر ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ ج کے ص صفحہ 17 میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ ج 3 ص 117 میں واقدی رحمہ اللہ کی روایت اس کے مشائخ سے نقل کی ہے لیکن یہ محمد بن عمر واقدی رحمہ اللہ متروک و کذاب ہے ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ روایت بیان کرتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ روایات گھڑتا ہے امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے متروک ہونے پر اجماع ہے۔
المغنی فی الغعفا ج 2 ص 354، المیزان، ج 3، صفحه: 262
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں واقدی کی کتابیں سب جھوٹ ہیں۔
تہذیب ، ج 5، صفحه 331-335
سیف بن عمر رحمہ اللہ کی اپنے مشائخ سے روایت البدایہ 116/7، الاصابہ 5/3
امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ بالا اتفاق متروک ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ موضوع روایات بیان کرتا ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ابو داؤد رحمہ اللہ نسائی رحمہ اللہ دار قطنی رحمہ اللہ ابن عدی رحمہ اللہ نے ضعیف متروک اور
وضاع قرار دیا ہے۔
المغنی ج 2 صفحہ460 تہذیب ج 2
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد رواہ الحافظ ابو القاسم لالکائی من طریق مالک عن نافع عن ابن عمر البدایہ والنہایہ 117
حافظ ابو القاسم الالکائی رحمہ اللہ نے مالک کے طریق سے از نافع از ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے لیکن خود اسکے بعد فرماتے ہیں فی صحته من حدیث مالک نظر اس روایت کا مالک کی حدیث سے صحیح ہونے میں نظر ہے اور یہ ابو القاسم الالکائی رحمہ اللہ کی کتاب شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ
میں بھی موجود نہیں یا تو یہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا وہم یا کوئی اور کتاب مراد ہوگی۔
حافظ ابو القاسم لالکائی رحمہ اللہ نے ہشام بن محمد بن مخلد بن مطر رحمہ اللہ قال نا ابوتوبه قال نا محمد بن مہاجر عن ابی بلج علی بن عبد اللہ کی سند بھی اس واقعہ کو بیان کیا۔
شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ ج 4 صفحہ 1425
اس سند میں ہشام بن محمد اور ابو بلج علی بن عبد اللہ کے حالات معلوم نہیں ۔
ابوبکر بن خلاد کی فوائد میں بطریق ایوب بن خوط عن عبد الرحمن السراج عن نافع بحوالہ سلسلہ الصحیفہ صفحہ 1110 لیکن اس سند میں بھی ایوب بن خوط متروک راوی ہے۔
امام بخاری ، امام ابن معین ، امام نسائی ، امام دارقطنی ، امام عمر بن علی الفلاس ، امام ابو حاتم ، امام احمد ، امام ابو داؤد ، امام حاکم ، ابو احمد رحمہ اللہ عنہم کے ہاں ضعیف متروک ہے۔
امام باجی فرماتے ہیں اس کے متروک الحدیث ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ یہ باطل روایات بیان کرتا تھا یہ نہ احکام میں حجت ہے نہ کسی اور چیز میں ۔ تہذیب ج 2 صفحہ 254
ماخذ از آپ کے مسائل اور ان کا حل مؤلف فضیلۃ الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ ج 3 ص 53 تا 54
تیسرا جواب اکثر اہل علم نے اس واقعہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت بیان کیا ہے۔ معجزہ اور کرامت ہمیشہ کے لیے دلیل نہیں ہوتی کیونکہ صاحب کرامت یا معجزہ کا یہ اختیار نہیں ہوتا وہ اپنی مرضی سے کرامت یا معجزہ نہیں دکھا سکتے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّمَا ٱلْـَٔايَـٰتُ عِندَ ٱللَّهِۖ وَإِنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌۭ 29/ العنکبوت 50
کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ کے قبضے میں ہیں بے شک میں نہیں ہوں مگر ڈرانے والا ظاہر۔
دوسرے مقام پر ارشادفرمایا:
وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِىَ بِـَٔايَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ40/ غافر 78
اور نہ تھا کسی رسول کے بس میں کہ لے آتا کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے ۔
تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ لَنَآ أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَـٰنٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ14/ ابراہیم 11
اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تمہیں کوئی معجزہ دکھائیں۔
ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے کہ ساریہ والے واقعہ کی کوئی حقیقت نہیں ایک ضعیف ترین قول پر عقیدے کی عمارت کس طرح کھڑی کی جاسکتی ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقیدہ توحید کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین۔
③ سعودی حکومت پر بریلوی الزام کہ وہ بتوں والی آیات سے استدلال کرتے ہیں
حفیظ الرحمن قادری صاحب کہتے ہیں کہ جنت المعلى اور جنت البقیع کے مبارک قبرستانوں کے دروازوں پر بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے ہیں جن پر وہ آیات جو بتوں کے لیے نازل ہوئیں وہ لکھی ہوئیں ہیں اور ترجمے میں یہ لکھا ہوا۔ کہ مردوں کو مت پکارو یہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور نہ یہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں ان آیات کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ قبر والوں کومت پکارو اور آپ ان کی جہالت دیکھیں بالکل اسی کے نیچے یہ لکھا ہے کہ سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ جب قبرستان تشریف لے جاتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اسلام عليكم يا اهل القبور
مشکوۃ 156 کتاب مذکور صفحه 26
اے قبر والو تم پر سلام ہو۔
✔ الجواب :
اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے قبروں کو اپنے روز گار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ ہمیشہ لوگوں کو قبرستان کی طرف ہی دعوت دیتے ہیں کہ تم مردوں سے مانگنے جایا کرو مردے تمہاری حاجات کو پورا کرتے ہیں وہ تمہاری دعائیں سنتے ہیں تمہیں اللہ کے قریب کرتے ہیں موصوف نے شاید کبھی قرآن ہی نہیں پڑھا کہ مردوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے:
وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُ35/ فاطر 22
اور نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں۔
بلکہ وہ زندہ کے ساتھ کسی شان میں شریک نہیں ہاں اگر کوئی استثنائی صورت موجود ہو مگر اس کی کوئی دلیل نہیں لہذا سماع میں مردہ زندہ کے ساتھ شریک نہیں پس وہ اس کا اہل نہیں کہ اس کو دعا کے لیے کہا جائے۔ نص قرآنی واضح ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ35/ فاطر : 22
اللہ جسے چاہے سنائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر والوں کو نہیں سنا سکتے۔
یعنی تم مخاطبین میں سے کوئی بھی قبر والوں کو نہیں سنا سکتا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے ان سے بڑھ کر اور کون ہے جو مردوں کو سنانے پر قادر ہے۔
ارشاد فرمایا:
فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ30/ الروم: 52
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جبکہ پیٹھ موڑ کر جارہے ہو۔
جب مردے کو ہم کوئی بات سنا ہی نہیں سکتے ۔ تو پھر کیسے اس کو دعا کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ اور وہ کیسے ہماری بات سنے گا اور ہمارے لیے کیسے دعا مانگے گا۔ بعض لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد کافر مردے ہیں مگر اللہ کے کلام میں کسی کی تخصیص نہیں مردے چاہے کافر ہوں کے مسلمان سب مراد ہیں۔ ایک جگہ پر میں تقریر کرنے گیا اور مجھے موضوع توحید دیا گیا تھا اور میں نے اپنے بیان میں یہ آیات پیش کر کے بتایا کہ مردے تمہاری بات نہیں سنتے اور نہ جواب دے سکتے ہیں تو ایک آدمی تقریر کے بعد میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ تم نے بیان کیا کہ آپ مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ اصل میں اس سے مراد دل کے مردے ہیں تو میں نے کہا جس کا دل مردہ ہو وہ نہیں سن سکتا تو پھر جو پورا مردہ ہے وہ کیسے سنے گا پھر کہنے لگا میرا ایمان ہے مردے سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ پھر میں نے کہا بھائی جان کبھی آپ نے مردے کا جواب سنا تو کہنے لگا ہم تو پھر نہیں سن سکتے میں نے کہا کیا آپ نے خوب بات کہی کہ وہ مردہ ہو کر ہماری بات سن رہا ہے اور ہم زندہ اور باہوش وحواس ہو کر بھی اس کی آواز کو نہیں سن سکتے ہم سے تو مردہ بہتر ہے جس کی سماعت مرنے کے بعد جینے والوں سے زیادہ تیز ہوگئی اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سننا مردوں کا کام ہے زندوں کا نہیں میں نے کہا آپ مردوں کی سماعت منوانے آئے اور زندوں کی سماعت کا انکار کر کے جارہے ہیں اللہ کے لیے کچھ تو غور کریں۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ27/ النمل: 80
کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر جائیں آواز سنا سکتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے تو ہم کہیں مردے سنتے ہیں یہ بات غیر موزوں ہے مردہ اگر سنتا ہے اگر کسی کا باپ فوت ہو جائے تو بیٹا کہے ابو جی کیا حال تو پھر وہ جواب کیوں نہیں دیتا یہ کہیں گے سنتا تو ہے۔ ویسے بولتا نہیں ایک اصول ہے آنکھیں بھی بند کر دیں زبان بند کروا دیں اور کان سننا جاری رکھیں جو بولتا نہیں اس کا کیا فائدہ مردہ تمہارے قریب پڑا ہے جو بولتا ہے اسے سننا چاہیے جو سنتا ہے اسے بولنا بھی چاہیے۔ یا تو کہو مردہ دیکھتا بھی ہے مردہ بولتا بھی ہے یہ بات نہیں کہیں گے کیونکہ ان کو پتہ ہے یہ بات کی تو لوگوں نے دیکھ لینا ہے اگر تو نے کہا مردہ بولتا ہے تو انہوں نے بلا کر دیکھ لینا ہے اگر تو نے کہا دیکھتا ہے تو انہوں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھ لینا ہے کہ حضرت صاحب دیکھ رہے ہیں بات سمجھے اس لیے کہو بھی یہی وہ سنتا ہے بولتا نہیں تا کہ لوگ سمجھ نہ جائیں اگر سمجھ بھی جائیں تو آگے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ بھیا یہ معرفت کی بات ہے۔ تم کیا سمجھو گے خاموشی بہتر ہے۔ میرے بھائیو ان چکروں میں پڑنے کی بجائے ہمیں اس وقت کی فکر کرنی چاہیے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ﴿١٧﴾ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ25/ الفرقان: 17-18
اور جس دن ان کو اور اُن کو جنہیں یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں جمع کر لے گا تو فرمائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہو گئے تھے وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایاں نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے۔
اس آیت مبارکہ پر غور کریں کہ جن کو اللہ تعالیٰ سوال کر رہا ہے کہ یہ بت ہیں بت تو کسی کو گمراہ کر ہی نہیں سکتے اس کے بارے میں مشہور بریلوی مفسر مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر خزائن العرفان تفسیر القرآن میں تحریر فرمایا ہے وہ جواب دیں گے تو ہم دوسرے کو کیا تیرے غیر کے معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے ہم تیرے بندے ہیں۔
تفسیر خزائن العرفان تفسیر القرآن مع 250 حاشیه نمبر 34
دوسرے مقام پر رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُۥٓ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَهُمْ عَن دُعَآئِهِمْ غَـٰفِلُونَ 46/ الاحقاف:5
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو ۔
حفیظ الرحمن قادری نے مدینہ منورہ کے قبرستانوں کا گلہ کیا کہ وہاں بتوں والی آیات لکھی ہوئی ہیں میں نے تو بتوں والی آیات تحریر نہیں کی مُردوں والی آیات لکھی ہیں۔
رہا یہ مسئلہ کہ آپ نے پھر یا کا حرف جو کہ مخاطب کے لیے آتا کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سلام سلامتی کی دعا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے یا جیسے خط لکھنے والا اسلام علیکم سے خطاب کرتا ہے اس سلام کا جواب فوری دینا تو در کنار جواب دینا بھی ضروری نہیں ہوتا جس وقت وہ خط لکھ رہا ہوتا ہے۔ مخاطب کرتے وقت جس سے وہ السلام علیکم کہہ کر خطاب کر رہا ہوتا ہے کیا وہ سن کر فوری جواب دے رہا ہوتا ہے کبھی جواب آجاتا ہے کبھی نہیں آتا اور اسکی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا ہوا سلام آپ خود نہیں سنتے بلکہ فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے پھر یہ کیوں کر ممکن ہے عام مسلمانوں پر بھیجا ہوا سلام از خود ان تک پہنچ جائے اور وہ اسے خود سن بھی لیں جبکہ قرآن مجید میں واضح ہے کہ آپ قبر والوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے۔
جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے خطاب فرمایا:
انى لاعلم انك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني لرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك
مسلم و بخارى
میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
کیا یہ بات دلیل بن سکتی ہے کہ پتھر سنتے ہیں اگر نہیں سنتے تو خطاب کیوں کیا دوسری بات جب ہم اپنے گھر تنہائی میں قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں تو بار بار يا ايها الذين آمنوا پڑھتے ہیں خطاب کرتے ہیں تو کیا تمام ایمان والے ہمارے یا کے خطاب کو سن رہے ہوتے ہیں یہ بات تو مسلمانوں کی ہے مگر جب ہم اپنی مسجد میں نماز میں قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں اور وہاں پر کوئی کافر موجود نہیں ہوتا ہم کہہ رہے ہوتے ہیں۔ قل يا ايها الكافرون
کہہ دو اے کا فرو تو کیا کافر ہماری بات کو سن رہے ہوتے ہیں اگر نہیں تو پھر خطاب کی کیا ضرورت ہے جو جواب یہاں آپ کا ہوگا وہاں ہمارا بھی وہی جواب ہوگا۔
ثالثاّ یہ دعائیہ کلمات کسی خاص ولی یا بزرگ یا نیک شخص کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر نیک و بد ہر شخص چاہے وہ چور ہو زانی شرابی ہو کم تولنے والا ہو جھوٹ بولنے والا ہو۔ اگر وہ مسلمان ہو تو اس قبرستان میں دعا و سلام کیا جائے گا اگر ہر شخص ہی سنتا ہے اور جواب دیتا ہے تو پھر پیروں اور فقیروں کی تو کوئی خوبی نہ رہی سب برابر ہیں۔ میرے بھائیو قبر تو ایسی جگہ ہے اگر کسی زندہ شخص کو بھی اس میں دفن کیا جائے تو اس پر کئی من مٹی ڈالی جائے تو پھر اوپر سے سلام کیا جائے تو بیچارہ زندہ آدمی بھی سن نہیں سکتا تو مردہ کیسے سنے گا یہ لڑائی دراصل پہلے ہی ختم ہو جانی چاہیے جب مردہ سامنے چار پائی پر پڑا ہوتا ہے۔ اُسی وقت سلام کر کے مشاہدہ کر لینا چاہیے کہ مردہ سنتا ہے یا نہیں جواب دیتا ہے یا نہیں مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
غور فرمائیں مردہ تو بالکل محتاج ہو جاتا ہے چاہے کتنا نیک بزرگ ہی کیوں نہ ہو اپنے چہرے پہ بیٹھنے والی مکھی بھی خود نہیں اڑا سکتا بلکہ مکھی اڑانے میں بھی زندہ لوگوں کا محتاج ہے۔ مشاہدے کی بات جب کوئی بندہ نیک ہو کہ بد فوت ہو جاتا ہے تو اسے استنجاء بھی دوسرے لوگ کرواتے ہیں خود نہیں کر سکتا کہ وہ محتاج ہے اگر کسی غیرت مند شخص میں طاقت ہو تو وہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ مجھے کوئی دوسرا شخص استنجاء کروائے عموماً میت کے کپڑے بڑے مشکل سے پھاڑ کر اتارے جاتے ہیں کہ یہ شخص نیک ہو کر گناہگار کپڑے اتارنے میں بھی زندہ لوگوں کا محتاج ہے طاقت نہیں رکھتا کہ وہ یہ کام کر سکے پھر غسل دیا جاتا ہے یہ بزرگ خود غسل کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا زندوں کا محتاج ہوتا ہے غسل دینے کے بعد اگر اس بزرگ کو کفن نہ پہنایا جائے تو خود پہن نہیں سکتا کیونکہ اس میں یہ کام کرنے کی طاقت نہیں۔ اس کے بعد قبرستان کی طرف خود چل کر نہیں جاسکتا۔ اس کی ٹانگوں میں چلنے کی قدرت نہیں اس لیے وہ زندہ لوگوں کا محتاج ہے لوگ اس کا جنازہ کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں پھر قبر کے کنارے سے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر قبر میں رکھتے ہیں وہ خود قبر میں اتر نہیں سکتا محتاج ہے یہ سارے کام کرنے کے بعد چھ فٹ زمین میں دفن کے بعد ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں تک تو آپ ہمارے محتاج تھے مگر اب ہم تیرے محتاج ہیں جب کبھی ہم پر مشکل آئی تو اسے ٹال دینا یہ تو ہمارا فہم ہے ہم سوچتے نہیں کسی بزرگ کی قبر پر جا کر کہتے ہیں حضرت صاحب اس دیوار کے پیچھے ایک برا آدمی ہے اسے سزا دے دو یہ بزرگ شفاء دینے پر قادر ہوتا تو خود بیمار ہوکر فوت نہ ہوتا بلکہ کبھی اپنے آپ کو موت سے بچالیتا۔
حیرت کی بات ہے کہ اچھا خاصہ صحت مند بندہ فوت شدہ بزرگ سے شفاء مانگتا ہے جبکہ وہ بزرگ بیمار ہو کر خود فوت ہو چکے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم بزرگ سے شفا نہیں مانگتے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ سے شفاء کی دعا مانگیں تو میں یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر وہ تجھے اللہ سے شفاء مانگ کر دے سکتے ہیں تو انہوں نے اپنی ذات کے لیے شفاء کیوں نہ مانگ لی۔
اور اپنے آپ کو موت سے کیوں نہ بچالیا۔ اگر موت آئی ہی نہیں فوت ہوئے ہی نہیں تو پھر ان بزرگوں کو کیوں زندہ دفن کر دیا ؟ کیا یہ ان کی توہین نہیں؟ آج بہت سے ہمارے مسلمان بھائی قلت تدبر کی وجہ سے قبر پر جا کر اولاد کی درخواست کرتے ہیں اور ان بزرگوں سے بھی مانگتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں دو شادیاں کی مگر ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی ۔ مثلاً حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ نے دو شادیاں کیں مگر اللہ نے ان کو اولاد سے نہیں نوازا۔ حوالہ کے لیے دیکھیں : سیرت گنج بخش صفحه 27 مؤلف اکمل اویسی پیرزادہ
سوچنے کی بات ہے اگر بندہ سمجھ جائے۔ لیکن ہم یہ سوچنے والی زحمت گوارہ نہیں کرتے ہم کہتے ہیں ۔ جہاں کوئی لگا ہوا ہے ٹھیک ہے یادیکھیں کہ مطلقا پکار شرک نہیں ہے جیسے ہم اپنے بچوں کو پکار کر بلاتے ہیں یا کسی دوست کو آواز دیتے ہیں اور کسی کو دور سے نداء دیتے ہیں یہ شرک نہیں ہے اور نہ یہ پکارنا اختلافی ہے۔ جس پکارنے میں اختلاف اس کی ایک صورت ہے ۔ وہ ہے جولوگ قبر میں مدفون حضرات کو مافوق الاسباب طریق سے پکارتے ہیں۔ جیسے یا شیخ عبدالقادر شیاء للہ وغیرہ یہ پکارنا شرک ہی کے ذیل میں آتا ہے کیوں کہ پکارنے والا ان کی بابت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود یہ فوت شدہ بزرگ میری آواز کو سنتا ہے اور میرے حالات سے ہر طرح باخبر ہے وہ حاضر ناظر ہے اور کائنات میں ہر چیز پر تصرف کا اختیار رکھتا ہے اسی لیے وہ شخص اس بزرگ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے نام کی نذرو نیاز دیتا ہے اس کے نام پر جانور قربان کرتا ہے اس کے نام کی دیگیں پکا کر تقسیم کرتا ہے۔ اس کے قبر پر چادریں چڑھاتا ہے اور اس کے ناراضگی سے ڈرتا ہے۔
اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے گیارہویں نہ دی تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے میرے کاروبار میں میرا نقصان کر دینگے۔ حالانکہ عالم الغیب نفع ونقصان اپنے علم کے اعتبار سےحاضر و ناظر اور تمام اُمور میں تصرف کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی ہے۔
یہ تمام صفات اللہ کے لیے خاص ہیں جن میں اس کا کوئی شریک نہیں لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کویا دیگر بزرگوں کو پکارنے والا غائبانہ طور یہ تمام صفات خداوندی ان بزرگوں میں تسلیم کرتا ہے جس طرح انسان کی سماعت محدود ہے بصارت بھی محدود ہے اللہ تعالی کی سماعت و بصارت لا محدود ہے۔ اگر بزرگوں کی سماعت و بصارت کو بھی لامحدود سمجھیں تو یہ شرک فی الصفات ہوگا یہی اختلاف ہے کہ بزرگوں سے دعا مانگنا بھی شرک ہے کیوں کہ دعا عبادت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدعاء هو العبادة
مشکوۃ کتاب الدعوات صفحه 194
پکارنا دعا کرنا عبادت ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی ہستی سے دعا کرنا اسکی عبادت ہے لہذا یہ شرک ہے ۔
④ شرکیہ عقائد کے جواز میں چیونٹی کی بریلوی دلیل کا جائزہ
ایک دلیل یہ بھی دی کہ ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ اے چیونٹیو! اپنے گھروں کو چلی جاؤ کہ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان علیہ السلام اور ان کے لشکر بے خبری میں سورۃ نمل
✔ الجواب :
یہ بات بریلویت کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ یا حرف جو چیونٹی نے استعمال کیا وہ چونٹیاں اس وقت اس کے پاس موجود تھیں۔ غائبانہ طور پر پکارنا نہ تھا ایسے پکارنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ چیونٹی نے تو یہ بھی کہا تھا کہ سلیمان اور ان کا لشکر بے خبری میں انہیں کچل نہ دیں چیونٹی کا بھی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
اللہ تعالی نے جناب سلیمان علیہ السلام کو تمام مخلوقات پر حکومت عطا فرمائی چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا مانگی:
قَالَ رَبِّ ٱغْفِرْلِى وَهَبْ لِى مُلْكًۭا لَّا يَنۢبَغِى لِأَحَدٍۢ مِّنۢ بَعْدِىٓۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ38/ ص: 35
اے پروردگار میری مغفرت فرما اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد کسی کو شایان نہ ہو بیشک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔
جناب سلیمان علیہ السلام کو اس دعا کے بدلے میں ایسی حکومت عطا فرمائی کے پرندوں کی زبان حتی کہ تمام مخلوقات جو ان کے سامنے تھے اُس کی زبان کو سمجھتے تھے یہ ان کا خاصا تھا۔ لیکن غائبانہ طور پر ہونے والے کاموں سے وحی کے بغیر باخبر نہ ہوتے تھے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں واقعہ مذکور ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ27/ النمل: 20-22
اور جب انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے کہ ھدھد نظر نہیں آتا کیا کہیں غائب ہو گیا ہے میں اسے سخت سزا دونگا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے سامنے دلیل صریح پیش کرے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ھدھد آموجود ہوا اور کہنے لگے مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔
یہ واقعہ چیونٹیوں والا حفیظ الرحمن قادری صاحب کی دلیل نہیں بنتا اور نہ ہی غائبانہ طور پر غیر اللہ سے اس کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ سب کو حق بات تسلیم کرنے کی توفیق دے اصل بات یہ ہے کہ جیسے قرآن مجید میں ہے:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ 2/ البقرہ:253
یہ رسول جو بھیجے گئے ہیں ہم نے انہیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر فضیلت دی ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے اور عیسی ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور اسکی روح القدوس سے مدد کی۔
انبیاء ورسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں نبوت اور رسالت عطا فرمائی اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو نیز فرمایا کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو حتی کہ یونس بن متی پر بھی۔
بخاری شریف، کتاب الانبیاء، بحوالہ تیسیر القرآن، ج 1 ص 179
رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالٰی نے کسی ایک رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور کسی دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیے اور یہاں فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہراست کلام کیا جو اور کسی سے نہیں کیا۔ عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بنا کر ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے وغیرہ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی فضیلت دی تھی۔
⑤ نماز کے اندر سلام کے الفاظ سے متعلق بریلوی شبہہ
حفیظ الرحمن قادری صاحب نے ایک دلیل پیش کی نماز کے اندر پکارنا:
السلام عليك ايها النبى ورحمته الله وبركاته
”اے نبی سلام ہو تم پر اللہ کی رحمت اور برکت۔“
یہاں علیک میں ک واحد حاضر ضمیر مخاطب کے لیے بولا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ جب تک ہم نماز میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر جان کر پکارتے نہیں ہماری نماز ہی نہیں ہوتی۔
کتاب مذکورہ صفحه 30
✔ پہلا جواب :
نماز میں السلام عليك ايها النبي جو پڑھا جاتا ہے جو بظاہر خطاب ہے لیکن اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کا عقیدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ حکایۃ پڑھا جاتا ہے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز میں پڑھا کرتے تھے ظاہر بات ہے کہ اللہ کا حکم پاکر التحیات میں یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی خطاب کس سے ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کون سا نبی تھا جس کو حاضر ناظر سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرمایا کرتے تھے۔
اگر یہ سلام بطور خطاب ہوتا تو اس کا جواب بھی ضروری ہوتا لیکن ظاہر بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم التحیات میں یہ سلام پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب نہیں دیتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھےاور نہ سنانا مقصود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ تھا اب آپ کی وفات کے بعد یہ عقیدہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ بہر حال یہ سلام دعا ہے جس کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا ہے یہ طریقہ بھی وہ ہے۔ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہمارا خود ساختہ طریقہ نہیں ہے۔
جس طرح اُس وقت نماز میں پڑھا گیا اسی طرح اب بھی پڑھا جاتا ہے پکارا نہیں جاتا۔
✔ دوسرا جواب :
اگر خطاب کی ضمیر کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے کہ جس کو مخاطب کیا جائے وہ ضرور سنتا ہے۔ تو پھر غور فرمائیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود پتھر سے خطاب فرمایا تھا۔
إني لاعلم انك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني لرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك
مسلم وبخارى
میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
کیا خطاب کرنے سے یہ دلیل بن سکتی ہے کہ پتھر بھی سنتا اور جواب دیتا ہے اگر جواب نہیں دیتا تو پھر مخاطب کیوں کیا اس سے پتہ چلا کہ ہر مخاطب کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے قرآن مجید میں ہے۔ قل يا ايها الكافرون کہہ دو اے کافرو پوری سورت میں کافروں سے ہم خطاب کرتے ہیں۔
جب ہم اپنی مسجد میں یا گھر میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے کافرو جس کی تم عبادت کرتے ہو اس کی میں عبادت نہیں کرتا اُس وقت ہمارے گھر میں کوئی کافر موجود نہیں ہوتا نہ مسجد میں تو پھر یہ خطاب کیسا ہے؟
✔ تیسرا جواب :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وفات نبوی کے بعد السلام على النبي پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں ۔
صحیح بخاری صفحہ 926
اس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی علي النبي پڑھتے تھے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد میں السلام على النبي پڑھتے تھے۔
موطا امام مالک صفحه 80
ابن عبدالرزاق رحمہ اللہ نے روایت کیا اخبرنا ابن جريج اجزاني عطاء ان الصحابة كانوا يقولون والنبي حي السلام عليك ايها النبى فلمامات قالو اسلام على النبى یعنی عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے تھے جب آنحضرت زندہ تھے۔ السلام عليك ايها النبي پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو کہنے لگے السلام على النبي
شرح موطا امام مالک، صفحه : 82
ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سننے کا نہیں تھا اور ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ : ايها النبي اور علي النبي دونوں طرح پڑھنا جائز ہے صحیح بات یہ ہے جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ معراج کی رات آپ کو ان الفاظ خطاب کیا گیا۔
مکاتیب ورسائل صفحہ 189
اگر اس پکارنے کا مقصد یہ ہوتا تو سوچنے کی بات ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نبی کو مخاطب کر کے پکارتے تھے لہذا اس کا مقصد صرف دعا ہے مخاطب کرنا نہیں موصوف کے موقف کی دلیل نہیں بن سکتا بہر حال یہ سلام دعا ہے جس کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا ہے اور دعا کا یہ طریقہ بھی وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے ہمارا خود ساختہ طریقہ نہیں ہے اس لیے اس مسنون سلام سے نہ خود ساختہ سلام کا جواز مہیا ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہی مردوں سے استمداد واستعانت کا اثبات ہو سکتا ہے۔
یہ جس طرح اُس وقت کہا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح کہا کرتے تھے جس طرح ہم اپنی مسجد کے اندر نماز میں تلاوت کرتے ہیں۔ قل يا ايها الكافرون اے کا فرو کیا مطلب کافر ہماری مسجد میں موجود ہوتے ہیں جنہیں ہم خطاب کرتے ہیں بلکہ نہیں یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ کافر مخاطب تھے تو ہم بھی اُسی طرح مخاطب کی ضمیر سے ہی خطاب کرتے ہیں اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا جاتا ہے۔
جس طرح قرآن مجید میں آتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ 27/ النمل: 18
اے چیونٹیو! اپنے گھروں کو چلی جاؤ کہ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر بے خبری میں۔
غور فرمائیں یہاں پر بھی ہم کہتے ہیں اے چیونٹیو! کیا اب بھی یہ چونیٹاں ہمارا خطاب سن رہی ہیں وہ چیونٹیاں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں تھیں کیا وہ اب بھی موجود ہیں اگر نہیں تو یقینا نہیں کیوں کہ یہ اُس وقت کی بات تھی جب چیونٹیاں موجود تھیں اُس وقت ایک چیونٹی نے کہا تھا۔ ہم آج بھی اسی طرح پڑھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اُس وقت کی بات تھی آج کی بات نہیں اسی طرح جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو آپ کو السلام عليك ايها النبي کہہ کر خطاب کیا گیا تھا یہ اس وقت کی بات تھی مگر ہم آج بھی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں موجود ہونے کا عقیدہ ہرگز درست نہیں اللہ تعالٰی سمجھنے کی توفیق دے آمین۔