کیا ’یارسول اللہﷺ‘ پر دائرہ لگانا گستاخی ہے؟ شرعی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 226

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک عالم دین، خطیب، امام اور راسخ العقیدہ مسلمان ہوں اور ساتھ ہی ٹیچر بھی ہوں۔ اسکول کے اوقات میں دورانِ پریڈ ایک طالبعلم کی زراعت کی کاپی پر میں نے یہ دیکھا کہ ہر صفحہ کے اوپر ’’یارسول اللہﷺ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے بطور استاد سمجھاتے ہوئے اس طالبعلم سے کہا کہ بیٹا یہ الفاظ کاپی پر نہیں لکھنے چاہییں کیونکہ یہ کاپی کسی دن ردی میں چلی جائے گی اور رسول اللہﷺ کے اسم مبارک کی توہین ہوگی۔

ساتھ ہی میں نے ’’یارسول اللہﷺ‘‘ کے الفاظ کے گرد دائرہ بھی لگایا۔ اور میں بحیثیت مسلمان اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس وقت میری نیت میں توہین رسالت ہرگز مقصود نہ تھی اور نہ ہی رسول اللہﷺ کی ہتک میرے ذہن میں آئی۔ بلکہ میں نے یہ دائرہ خالص محبتِ رسولﷺ، احترام اور اکرام کے جذبے کے تحت لگایا۔

میں سلفی العقیدہ اہل حدیث ہوں اور اپنے مسلک پر سختی سے کاربند ہوں۔ ہمارے عقیدے میں رسول اللہﷺ کی عظمت اور مقام میں گستاخی کا تصور بھی کفر اور ارتداد ہے۔ مگر بعض حضرات میرے اس عمل پر اعتراض کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا میرے اس عمل میں شرعاً گستاخی کا کوئی پہلو پایا جاتا ہے؟

(سائل: محمد یحییٰ صابر، بمقام بازید پور، تحصیل و ضلع قصور)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحتِ سوال، اگر واقعی سائل نے طالبعلم کو رسول اللہﷺ کی تعظیم و تکریم کے تقاضے سمجھانے کے لیے ’’یارسول اللہﷺ‘‘ پر دائرہ لگایا یا کراس کیا ہے تو اس کو توہین رسالت پر محمول کرنا ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ سائل نے یہ کام احترامِ رسولﷺ کے جذبے سے کیا ہے تاکہ کاپی ردی میں جانے پر ان الفاظ کی بے ادبی نہ ہو۔ لہٰذا اس نیت پر اعتراض کرنا اور اس عمل کو گستاخی سمجھنا درست نہیں۔

صحابہ کرامؓ کے واقعات سے مثال

◈ صحابہ کرامؓ کی محبتِ رسول ﷺ بے مثال تھی، ان کے دل عشقِ رسول سے سرشار تھے۔ تاہم بعض اوقات مصلحتِ دینی کے تحت ان سے ایسے افعال بھی سرزد ہوئے جو بظاہر گستاخی محسوس ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

➊ صلح حدیبیہ کا واقعہ

حضرت علیؓ نے صلح نامہ لکھتے وقت ’’محمد رسول اللہﷺ‘‘ تحریر کیا۔ مشرکین نے کہا: اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو جنگیں کیوں کرتے؟ اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانے کا حکم دیا۔ مگر حضرت علیؓ نے انکار کیا۔ بظاہر یہ حکم عدولی تھی لیکن حقیقت میں یہ ان کی ایمانی غیرت اور محبتِ رسول کا اظہار تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے یہ الفاظ مٹا دیے اور حضرت علیؓ کو ڈانٹا بھی نہیں۔

روایت کے الفاظ:
«كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بَيْنَهُمْ كِتَابًا، فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ المُشْرِكُونَ: لاَ تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولًا لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحُهُ»، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ»

➋ حضرت محمد بن مسلمہؓ کا واقعہ

حضرت محمد بن مسلمہؓ نے یہودی کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے اجازت طلب کی اور کہا: اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کو بہلانے کے لیے آپ کے خلاف کچھ الفاظ کہہ سکتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ اس پر حضرت مسلمہؓ نے کعب سے کہا کہ یہ شخص (رسول اللہﷺ) ہمیں صدقے کے مطالبے سے مشقت میں ڈال دیتا ہے۔

روایت کے الفاظ:
«فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ: «قُلْ»، فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا»

بظاہر یہ کلمات گستاخی محسوس ہوتے ہیں مگر حقیقت میں نیت خالص دین کی مصلحت تھی۔

نیت کی اہمیت

ان دونوں واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے خلاف صرف وہی قول و فعل گستاخی کہلائے گا جس کی بنیاد بدنیتی اور عناد ہو۔ نیک نیتی اور دینی مصلحت کے تحت کیے گئے افعال کو گستاخی کہنا جائز نہیں۔

صحیح بخاری میں باب ہے:
بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَدَخَلَ فِيهِ الإِيمَانُ، وَالوُضُوءُ، وَالصَّلاَةُ، وَالزَّكَاةُ، وَالحَجُّ، وَالصَّوْمُ، وَالأَحْكَام

حدیث:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «العَمَلُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»

یہ حدیث دین کی بنیادوں میں سے ہے اور اس پر عمل کے صحیح یا باطل ہونے کا دارومدار ہے۔

نتیجہ

لہٰذا جب سائل اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ اس نے صرف طالبعلم کو ادبِ رسولﷺ سمجھانے کے لیے ’’یارسول اللہﷺ‘‘ پر دائرہ لگایا تو اس پر گستاخی یا کفر کا فتویٰ لگانا بالکل ناجائز ہے۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں:
من صدرعنه ما يحتمل الكفر من تسعة و تسعين وجها ويحتمل الايمان من وجه حمل امره على الايمان

یعنی اگر کسی شخص کے عمل میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور ایک پہلو ایمان کا ہو تو اس کے عمل کو ایمان پر محمول کیا جائے گا، نہ کہ کفر پر۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے