سوال :
کیا ہنسی مذاق میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
جواب:
ہنسی مذاق میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد؛ النكاح ، والطلاق، والرجعة .
تین چیزوں کی حقیقت تو حقیقت ہے ہی ، ان کا مذاق بھی حقیقت ہے۔
ا۔ نکاح 2 طلاق 3۔ رجوع
(سنن أبي داود : 2194 ، سنن الترمذي : 1225، سنن ابن ماجه : 2039، شرح معاني الآثار للطحاوي : 58/2 ، سنن الدارقطني : 256/3-257 ، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن غریب ، امام ابن جارود رحمہ اللہ (712) نے صحیح اور امام حاکم رحمہ اللہ (192/2) نے صحیح الاسناد کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
(التلخیص الحبیر : 210/3)
عبد الرحمن بن حبیب بن اردک حسن الحدیث ہے۔
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
العمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم .
اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر علم کا اسی پرعمل ہے۔
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
اتفق عامة أهل العلم على أن صريح لفظ الطلاق إذا جرى على لسان البالغ العاقل فإنه مؤاخذ به ولا ينفعه أن يقول : كنت لا عبا أو هازلا أو لم أنو به طلاقا أو ما أشبه ذلك من الأمور .
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ طلاق کا صریح لفظ جب کسی بالغ عاقل کی زبان پر جاری ہو جائے تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔ گو وہ کہتا پھرے کہ میں نے مذاق کیا تھا یا طلاق کی نیت ہی نہیں کی تھی ، یا اس طرح کی کوئی اور بات کرے۔
(معالم السنن : 243/3 ، شرح السنة للبغوي : 220/9)