سوال:
کیا لوگوں کے اعمال اُن کے قریبی رشتہ داروں پر پیش ہوتے ہیں؟
مولانا عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ کی کتاب منھاج الخطیب میں ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب کوئی مومن فوت ہوتاہے تو عالم برزخ میں اس کی نیک لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور عالم برزخ میں نیک لوگ فوت ہوکرآنے والے مومن سے طرح طرح کے اہم سوال کرتے ہیں اگرچہ اس کی کیفیت صرف اللہ ہی جانتے ہیں لیکن ہمارا قرآن وحدیث پر مکمل ایمان ہے اور اسی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
"إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ”
بلاشبہ تمہارے اعمال تمہارے قریبی اور خاندان والوں پر پیش کیے جاتے ہیں، اگر اعمال اچھے ہوں تو وہ راضی اور خوش ہوتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں: اے اللہ! یہ تیرا فضل اورتیری رحمت ہے۔ ہمارے اس نیکی کرنے والے پیارے پر اپنی نعمت کو مکمل فرما اور اسی پر اس کو موت دے۔ اور اسی طرح آخرت والوں پر بُرائی کرنے والے کا عمل بھی پیش کیاجاتا ہے۔ وہ دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس کو ایسے نیک عمل کی توفیق عطا فرما جو تیری خوشنودی اور قرب کا باعث ہو۔”
ماخذ: منھاج الخطیب ص434-435، دار القدس خطبہ نمبر 19، کتاب الزہد امام عبداللہ بن مبارک 149،443، المعجم الکبیر امام طبرانی 4/154/3889، شرح الصدور امام سیوطی، سلسلۃ الاحادیث صحیحہ :2758 امام البانی۔
ابو ابراہیم خرم ارشاد محمدی صاحب نے اس روایت کی سند پر تحقیق کی درخواست کی ہے۔
جواب:
روایت کی تحقیق
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
آپ کی ذکر کردہ روایت کو امام طبرانی نے اپنی درج ذیل کتب میں مرفوعاً نقل کیا ہے:
◈ المعجم الکبیر 4/129، حدیث 3887
◈ المعجم الاوسط 1/130-131، حدیث 148
◈ مسند الشامیین 2/383، حدیث 1544؛ 4/371، حدیث 3584
◈ عبدالغنی المقدسی کی السنن 198/1
سند کی کیفیت
اس روایت کی سند میں مسلمہ بن علی شامل ہے، جو ضعیف راوی ہے:
◈ حافظ ہيثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس میں مسلمہ بن علی ضعیف ہے۔”
(مجمع الزوائد 2/327)
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اور وہ (مسلمہ بن علی) مہتم ہے۔”
(الضعیفہ 2/255)
اس سند کے دوسرے راوی عبدالرحمن بن سلامہ کے بارے میں شیخ البانی فرماتے ہیں:
"مجھے اس کے حالات نہیں ملے۔”
(الصحیحہ 6/605، حدیث 2758)
لہٰذا، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت پر حتمی رائے دیتے ہوئے فرمایا:
"ضعيف جدا” (سخت ضعیف ہے)
(الضعیفہ 2/254، حدیث 864)
موقوف روایت
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی کتاب الزہد (حدیث 443) میں اس مفہوم کی ایک موقوف روایت بھی موجود ہے جو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ہے، جس کی سند یوں ہے:
"عن ثور بن يزيد عن أبي رهم السَّمَعِيّ عن أبي أيوب الأنصاري”
شیخ البانی کی دو مختلف آراء:
➊ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 6/604، حدیث 2758 میں لکھتے ہیں:
"قلت: وإسناده موقوف صحيح”
"میں نے کہا: اس کی موقوف سند صحیح ہے۔”
➋ اسی کتاب کی جلد 6، صفحہ 264، حدیث 2628 میں لکھتے ہیں:
"قلت: ورجاله ثقات لكنه منقطع بين ثور بن يزيد وأبي رهم….”
"میں نے کہا: اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن ثور بن یزید اور ابو رہم کے درمیان انقطاع ہے۔”
یعنی یہ سند منقطع ہے، اس لیے صحیح نہیں کہی جا سکتی۔
دیگر شواہد اور ان کی ضعف
➊ سلام الطویل کی روایت – راوی متروک ہے
➋ معاویہ بن یحیٰ کی روایت – راوی ضعیف ہے
➌ حسن بصری کی طرف منسوب مرسل روایت
تمام شواہد ضعیف ہیں۔
خلاصہ تحقیق
مذکورہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ غالب گمان ہے کہ مولانا عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ کو اس روایت کی مکمل تحقیق کا موقع نہ ملا ہو، لہٰذا انھوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنی کتاب منھاج الخطیب میں شامل کر لیا۔
واللہ اعلم
تنبیہ:
مسند البزار کی روایت (البحر الزخار 17/154-155، حدیث 9760؛ کشف الاستار 1/413-414، حدیث 874) حسن لذاتہ ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیحہ 6/262-263، حدیث 2628 میں ذکر کیا ہے۔
متعلقہ حدیث کا ترجمہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب مومن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے تو وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کرکے یہ پسند کرتا ہے کہ اب اس کی روح نکل جائے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرسکے)، اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں۔ مومن کی روح آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور (فوت شدگان) مومنوں کی ارواح کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ وہ اس سے اپنے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں دریافت کرتی ہیں۔ جب وہ روح جواب دیتی ہے کہ فلاں تو ابھی دنیا میں ہی تھا (یعنی ابھی تک فوت نہیں ہوا تھا)، تو وہ خوش ہوتی ہے۔ اور جب وہ جواب دیتی ہے کہ (جس آدمی کے بارے میں تم پوچھ رہی ہو) وہ تو مرچکا ہے، تو وہ کہتی ہیں: اسے ہمارے پاس نہیں لایا گیا (یعنی اسے جہنم میں لے جایا گیا ہے)۔”
"مومن کو قبر میں بٹھادیا جاتا ہے اور اس سے سوال کیا جاتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر سوال کیا جاتا ہے: تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔”
"(ان سوالات و جوابات کے بعد) اس کی قبر میں ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔ وہ اپنی قبر کی طرف دیکھتا ہے، پھر گویا کہ نیند طاری ہوجاتی ہے۔”
"جب اللہ کے دشمن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے اور مختلف حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے بچ جائے)، اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔ جب اسے قبر میں بٹھادیا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میں نہیں جانتا۔ اسے کہا جاتا ہے: تو نے جانا ہی نہیں۔ پھر (اس کی قبر میں) جہنم سے دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر چوپایہ اس کو سنتا ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: ‘منہوش’ کی نیند سوجا۔”
"میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: ‘منہوش’ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: منہوش سے مراد وہ آدمی ہے جسے کیڑے مکوڑے اور سانپ ڈستے اور نوچتے رہتے ہیں۔ پھر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے۔”
(اردو سلسلۃ احادیث صحیحہ 3/216-217، حدیث 1713)
دیگر احادیث اور آثار
➊ صحیح بخاری 3336، صحیح مسلم 2638:
"الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ”
➋ سنن ابن ماجہ 1450، مسند احمد 4/391، حدیث 19482:
امام محمد بن المنکدر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا۔”
(وسندہ صحیح)
➌ السنن الکبری للنسائی 4/384، حدیث 731؛ مسند احمد، موسوعۃ حدیثیہ 36/201:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"إِنَّ الرَّوْحَ تَلْقَى الرَّوْحَ”
➍ مسند احمد 5/214،215؛ طبقات ابن سعد 4/381:
ایک مختلف روایت:
"إِنَّ الرَّوْحَ لَا تَلْقَى الرَّوْحَ”
یعنی "روح کی روح سے ملاقات نہیں ہوتی”
➎ مصنف ابن ابی شیبہ 11/78، حدیث 30506:
"الروح یلقی الروح” یا "لا تَلقى الروح”
➏ مسند ابن ابی شیبہ 1/37، حدیث 18:
"تَلقى الروح” — اثبات کے ساتھ
یہ اختلاف نفی اور اثبات کے مابین ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت مضطرب یعنی ضعیف ہے۔
نتیجہ
احادیث صحیحہ اور غیر مضطربہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ مرنے کے بعد روحوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے۔ البتہ وہ روایت جس میں الفاظ ہیں:
"إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ”
یہ سنداً ثابت نہیں بلکہ ضعیف و مردود ہے۔
تاریخ: 18 شوال 1433ھ، بمطابق 16 ستمبر 2012ء
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب