کیا گاؤں میں جمعہ جائز ہے؟ دلائل اور سلف صالحین کی آراء
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص104

گاؤں میں نماز جمعہ کی مشروعیت: دلائل، اقوال، اور شبہات کا رد

سوال

کیا گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

جی ہاں! گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے، اور یہ بات دلائلِ شرعیہ سے واضح طور پر ثابت ہے۔ ذیل میں اس مسئلہ پر تفصیلی تحقیق پیش کی جاتی ہے:

پہلا حصہ: قرآن کریم کی دلیل

سورۃ الجمعہ کی آیت:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ‌ اللَّـهِ…﴿٩﴾... سورةالجمعة

ترجمہ (شاہ عبدالقادر دہلوی):
"اے ایمان والو! جب اذان ہو نماز کی دن جمعہ کے، تو دوڑو اللہ کی یاد کو، اور چھوڑ دو بیچنا۔”

مختلف مفسرین کے تراجم:

  • امداد علی لاہوری (دیوبندی): ’’نماز کے لئے اذان دی جائے تو ذکر الہی کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘
  • عبدالحق حقانی: ’’اللہ کی یاد کے لئے جلدی چلو اور سودا چھوڑ دو۔‘‘
  • اشرف علی تھانوی: ’’اذان کہی جایا کرے تو اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو۔‘‘
  • شبیر احمد عثمانی: ’’دوڑنے سے مراد پورے اہتمام اور مستعدی کے ساتھ جانا ہے۔‘‘

مفسرین کی وضاحت:

  • امام ابن جریر الطبری: ’’اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں سے فرماتا ہے۔‘‘
  • علامہ قرطبی: ’’اللہ نے مومنین سے خطاب فرمایا ہے، کافروں سے نہیں۔‘‘
  • قاضی ابو بکر بن العربی المالکی: ’’جمعہ کا خطاب مومنین سے ہے، کفار سے نہیں۔‘‘
  • حافظ ابن کثیر: ’’اللہ نے مومنین کو عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم فرمایا۔‘‘

مزید دیکھیے:

  • تفسیر الخطیب الشربینی
  • تفسیر السعدی

لفظ "المومنین” کا مفہوم:

تمام مؤمنین مراد ہیں؛ اس میں ال (الف لام) استغراقی ہے۔ لہٰذا یہ خطاب شہریوں کے ساتھ ساتھ دیہاتی مؤمنین کے لیے بھی ہے۔

امام بخاری کی رائے:

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے فرضیتِ جمعہ پر استدلال کیا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب فرض الجمعہ، حدیث ۸۷۶)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تفسیر:

فامضوا الی ذکر اللہ
(پس اللہ کے ذکر کی طرف چلو)
(تفسیر طبری ج۲۸ ص۶۵، سند صحیح)

دوسرا حصہ: دیگر شرعی دلائل

حدیث طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ:

«الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جماعة الا اربعة: عبد مملوک، او امراة اوصبی او مریض»
(سنن ابی داود: ۱۰۶۷)

– اس حدیث کی سند طارق بن شہاب تک صحیح ہے۔

حدیث سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا:

«علی کل محتلم رواح الجمعة»
(سنن ابی داود: ۳۴۲، صحیح ابن خزیمہ: ۱۷۲۱، ابن حبان: ۱۲۱۷)

– ہر بالغ پر جمعہ واجب ہے، چاہے وہ شہری ہو یا دیہاتی۔

دیگر احادیث سے بھی وجوب جمعہ ثابت:

  • صحیح مسلم: ۸۶۵
  • سنن ابی داود: ۱۰۵۲
  • مسند احمد ۳/۳۳۲، ابن ماجہ: ۱۱۲۶
  • مسند احمد ج۵ ص۳۰۰، طحاوی ج۸ ص۲۱۰
  • کتاب المعرفہ والتاریخ ج۲ ص۵۰۷، شعب الایمان ج۴ ص۴۲۱
  • صحیح مسلم: ۶۵۲
  • مستدرک للحاکم ج۱ ص۲۸۸ ح۱۰۶۲

تیسرا حصہ: آثارِ سلف صالحین

  • عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ: ’’جس نے تین جمعے ترک کئے، اس نے اسلام کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔‘‘ (مسند ابی یعلی، ج۵ ص۱۰۲، ح۲۷۱۲)
  • ابوہریرہ رضی اللہ عنہ: "جمعہ جہاں بھی ہو، وہاں پڑھو۔” (مصنف ابن ابی شیبہ، ج۲ ص۱۰۲، ح۵۰۶۸)
  • عمر بن عبدالعزیز کا خط: ’’پانی والی جگہوں پر لوگوں کو جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق، ج۳ ص۱۶۹)
  • امام زہری سے فتویٰ: ’’چھوٹے گاؤں میں بھی جمعہ جائز ہے۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق، ج۳ ص۱۷۰)
  • سیدنا انس رضی اللہ عنہ: زاویہ نامی گاؤں میں عید اور جمعہ پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری قبل ح۹۸۷، ح۹۰۲)
  • امام مالک: صحابہ مکہ و مدینہ کے درمیان جمعہ پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲)
  • امام بخاری: ’’باب الجمعۃ فی القری والمدن‘‘ باندھا۔ (صحیح بخاری مع فتح الباری ج۲ ص۳۷۹)
  • ابن عمر رضی اللہ عنہ: پانی والی جگہوں پر جمعہ پڑھنے والوں پر اعتراض نہ کرتے تھے۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۰)
  • ابوداود: باب باندھا: ’’باب الجمعۃ فی القری‘‘ (سنن ابی داود ص۱۶۸)
  • عطاء بن ابی رباح: ’’ایسا گاؤں جس کے گھر ملے ہوں، وہاں جمعہ پڑھیں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج۲ ص۵۳۸)

چوتھا حصہ: شبہات اور ان کے جوابات

شبہ: جمعہ صرف شہروں میں ہے

جواثا اور حرہ بنی بیاضہ دونوں گاؤں تھے، اور وہاں صحابہ نے جمعہ پڑھا۔
(سنن ابی داود: ۱۰۶۹، ابن خزیمہ: ۱۷۲۴، المستدرک: ۲۸۱)

شبہ: حدیث "لا جمعة ولا تشریق الا فی مصر جامع”

  • ✿ اس کا مطلب نفی کمال ہے، نفی صحت نہیں۔
  • کفایت المفتی اور تھانوی دیوبندی نے بھی اسی کو تسلیم کیا۔

شبہ: مدینے کے لوگ باری باری مسجد آتے تھے

✿ یہ حدیث (صحیح بخاری: ۹۰۲) جمعہ کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، نہ کہ دیہات میں جمعہ کی ممانعت کو۔

شبہ: قبا میں جمعہ نہ پڑھنے کا استدلال

✿ اس وقت نبی ﷺ مسافر تھے، اور مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔

شبہ: "اہل البادیہ” پر جمعہ نہیں

✿ یہ روایت ضعیف ہے:

  • ✿ ابراہیم بن حماد: ضعیف
  • ✿ احمد بن محمد بن الحجاج: مجروح راوی

شبہ: قول حذیفہ رضی اللہ عنہ

✿ اس کی سند ضعیف اور منقطع ہے۔

شبہ: ابراہیم نخعی، ابو حنیفہ، ابو یوسف کا قول

باسند صحیح ثابت نہیں۔
کتاب الآثار کی سند بھی ناقابلِ اعتماد ہے۔

شبہ: عرفات میں جمعہ نہ پڑھنے سے استدلال

✿ وہ جمع تقدیم تھا، اور حج کی مخصوص عبادت کے تحت تھا۔

شبہ: حدیث "الجمعة فی الامصار”

✿ اس حدیث کی سند میں راوی مدلس ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔

خلاصہ

قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ، آثارِ سلف صالحین اور جمہور علماء کی آراء کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گاؤں میں نماز جمعہ فرض اور جائز ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1