کیا کسی مخصوص فرد کو شہید کہنا شرعاً جائز ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

کیا کسی شخص کو "شہید” کہنا جائز ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی شخص کو شہید کہنے کے معاملے میں دو صورتیں ممکن ہیں:

پہلی صورت: شہادت کو بطور وصف بیان کرنا

اگر شہادت کو کسی وصف کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے بیان کیا جائے، مثلاً کہا جائے:

جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جائے، وہ شہید ہے۔

یا جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو جائے، وہ شہید ہے۔

یا جو طاعون کے مرض سے فوت ہو جائے، وہ شہید ہے۔

اس طرح کہنا جائز ہے کیونکہ یہ بات نصوص (شرعی دلائل) میں آئی ہے۔

اس طرح کہنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق ہے۔

ہم جب کہتے ہیں کہ یہ کہنا جائز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمل ممنوع نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی خبر کی تصدیق کرنا واجب ہے۔

دوسری صورت: شہادت کو کسی معین شخص کے لیے کہنا

جب کسی خاص فرد کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ شہید ہے، تو یہ عمل جائز نہیں۔

سوائے ان افراد کے:

جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شہادت دی ہو۔

یا جن کے متعلق امت کا اجماع (اتفاق) ہو۔

امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف:

امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب قائم کیا:
(باب لا یقال فلان شہید)
"یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے۔”

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے تحت لکھا:

کسی خاص فرد کے بارے میں قطعی طور پر شہید کہنا جائز نہیں۔

الا یہ کہ وحی کے ذریعے ایسا علم حاصل ہو جائے۔

انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"تم اپنے غزوات میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے، فلاں شہادت کی موت مرا ہے، حالانکہ ہو سکتا ہے کہ وہ سواری سے گر کر مرا ہو، لہٰذا اس طرح نہ کہا کرو بلکہ یوں کہا کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں فوت ہو یا قتل ہو وہ شہید ہے۔”

یہ حدیث حسن ہے اور اسے امام احمد، سعید بن منصور وغیرہ نے محمد بن سیرین کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
(فتح الباری: 110/6)

شہادت کی بنیاد علم پر ہوتی ہے

شہادت ہمیشہ علم کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

کسی انسان کے شہید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑائی لڑی ہو۔

یہ بات باطنی نیت سے تعلق رکھتی ہے، جسے کسی انسان کے لیے جاننا ممکن نہیں۔

نبی کریم ﷺ کی احادیث سے وضاحت

«مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِی سَبِيْلِهِ»
(صحیح البخاري، الجهاد والسير، باب افضل الناس مومن مجاهد بنفسه وماله فی سبيل اللہ، ح: 2787)
*”اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال یہ ہے… اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے۔”*

«وَالَّذِی نَفْسِی بِيَدِهِ لَا يُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُکْلَمُ فِی سَبِيْلِهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وکلمه يثعب دما، َاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْکِ»
(صحيح البخاري، الجهاد والسير، باب من يجرح فی سبيل الله عزوجل، ح: 2803)
*”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں زخم لگے… اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے رستے میں کسے زخم لگتا ہے… وہ روز قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہا ہوگا، اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو ہوگی۔”*

شہادت پر امید رکھنا، گواہی دینا نہیں

جو شخص ظاہری طور پر نیک ہو، اس کے لیے ہم اُمید رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ہم نہ اس کے بارے میں گواہی دے سکتے ہیں اور نہ ہی بدگمانی کر سکتے ہیں۔

"امید” گواہی اور بدگمانی کے درمیانی درجہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

دنیاوی احکام شہداء کے مطابق

اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہو:

اسے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا جائے گا۔

اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

اگر اس کا تعلق دیگر اقسام کے شہداء سے ہو:

تو اسے غسل، کفن دیا جائے گا۔

اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔

کسی معین شخص کے بارے میں شہادت دینا

اگر ہم کسی مخصوص شخص کو "شہید” کہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کے جنتی ہونے کی بھی شہادت دے رہے ہیں۔

یہ اہلِ سنت کا عقیدہ نہیں ہے کہ کسی فرد کے لیے قطعی طور پر جنتی ہونے کی گواہی دی جائے۔

سوائے ان کے:

جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصف یا شخصی طور پر شہادت دی ہو۔

کچھ علماء کے نزدیک:

اگر کسی شخص کی تعریف پر امت کا اجماع ہو تو اس کے بارے میں شہادت دینا جائز ہو سکتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔

نتیجہ

اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

نصوص یا اجماع امت کے بغیر کسی معین فرد کے بارے میں شہید ہونے کی شہادت دینا جائز نہیں۔

البتہ جو شخص ظاہری طور پر نیک ہو، اس کے بارے میں امید رکھی جا سکتی ہے۔

درحقیقت، اس کی مدح و تعریف کے لیے یہی کافی ہے۔

اس کے حقیقی انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1