کیا پڑوسی کے لیے حق شفعہ ہے
➊ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجار أحق بسقبه
”ہمسایہ اپنے قریبی ہونے کی وجہ سے زیادہ حق رکھتا ہے۔“
[بخاري: 2258 ، 6977 ، كتاب الشفعة: باب عرض الشفعة على صاحبها قبل البيغ ، ابو داود: 3516 ، نسائي: 4702 ، ابن ماجة: 2495 ، ترتيب المسند للشافعي: 574]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جار الدار أحق بالدار
”مکان کا پڑوسی اس مکان کا زیادہ حق رکھتا ہے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3003 ، ابن حبان: 5182 ، طحاوي: 122/4 ، بيهقى: 106/6]
بظاہر اِن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پڑوسی کے لیے بھی حق شفعہ ہے اگرچہ شراکت نہ بھی ہو۔ لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان احادیث میں شفعہ کی وضاحت نہیں ہے لٰہذا ان سے مراد یہ ہو سکتا ہے کہ ہمسایہ بھلائی ، اعانت ، خیر خواہی اور ایثار و ترجیح کا زیادہ حقدار ہو۔
علاوہ ازیں لفظ ”جار“ کا اطلاق جس طرح پڑوسی پر ہوتا ہے اسی طرح شریک پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ قاموس میں ہے ۔
[القاموس المحيط: ص/ 332]
اور مندرجہ ذیل حدیث یہ بات ثابت کرتی ہے:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحد
”ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعہ میں زیادہ حقدار ہے۔ شفعہ کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1540 ، 378/5 ، ابو داود: 3518 ، كتاب البيوع: باب فى الشفعة ، ترمذى: 1369 ، أحمد: 303/3 ، ابن ماجة: 2494]
(شوکانیؒ ) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مجرد ہمسائیگی کے ذریعے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے اس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا ۔“
[نيل الأوطار: 43/3 ، منحة الغفاد: 1427/3]
(ابن قیمؒ) یہی (امام شوکانیؒ کی) بات زیادہ مبنی بر انصاف ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
[أعلام الموقعين: 150/2]
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) حق شفعه صرف شراکت سے ہی ثابت ہوتا ہے محض ہمسائیگی سے نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیّب ، سلیمان بن یسار، عمر بن عبد العزیز ، امام ربیعہ ، امام اوزاعی اور امام اسحاق و غیره رحمهم اللہ سے بھی یہی قول منقول ہے۔
(احناف) مجرد ہمسائیگی سے بھی حق شفعہ ثابت ہو جاتا ہے۔ امام ثوری ، امام ابن ابی لیلٰی اور امام ابن سیرین رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حدیث میں موجود یہ لفظ:
إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق
”بشرطیکہ حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں“ مدرج ہیں ۔
[سبل السلام: 98/3 – 99 ، الأم: 6/4 ، روضة الطالبين: 159/4 ، المبسوط: 92/14 ، فتح العلام: ص/ 480 ، المغنى: 436/7 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 266/5 ، البحر الزخار: 8/4]
(راجح) تقسیم واقع ہو چکی ہو اور راستے الگ ہو جائیں تو مجرد ہمسائیگی سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا۔
[السيل الجرار: 172/3]