سوال :
کیا ولی کی قبر کے پاس نماز پڑھنا مستحب ہے؟
جواب :
قبروں کے پاس نماز پڑھنا قبر پرستی کے شرک کا ذریعہ بن سکتا تھا، لہذا اس سے بھی منع کر دیا گیا، اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث موجود ہیں، نیز اس پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے کہ قبروں کے قریب نماز پڑھنا منع ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
أئمة الدين متفقون على النهي عن ذلك وأنه ليس لأحد أن يقصد الصلاة عند قبر أحد لا نبي ولا غير نبي وكل من قال : إن قصد الصلاة عند قبر أحد أو عند مسجد بني على أو مشهد أو غير ذلك، أمر مشروع بحيث يستحب ذلك ويكون أفضل من الصلاة فى المسجد الذى لا قبر فيه، فقد مرق من الدين، وخالف إجماع المسلمين، والواجب أن يستتاب قائل هذا ومعتقده فإن تاب وإلا قتل .
”ائمہ دین اس ( قبر کے پاس نماز کی ممانعت ) پر متفق ہیں ان کے نزدیک کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی نبی یا غیر نبی کی قبر کے پاس نماز پڑھے اور جو یہ کہتے ہیں کہ کسی قبر یا قبر پر بنی ہوئی مسجد یا مقبرے وغیرہ میں نماز پڑھنا مشروع و مستحب ہے اور عام مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، وہ دین سے نکل گئے ہیں اور مسلمانوں کے اجماع کے منکر ہیں، ایسی بات کہنے والے اور اس پر اعتقا در کھنے والے سے تو بہ کرانا ضروری ہے، اگر تو بہ کر لے، تو درست، ورنہ قتل کر دیا جائے ۔“
(مجموع الفتاوى : 489/27)
❀ نیز فرماتے ہیں :
لا تستحب الصلاة، لا الفرض ولا النفل عند قبر نبي ولا غيره بإجماع المسلمين؛ بل ينهى عنه .
”مسلمانوں کا اجماع ہے کہ کسی نبی یا غیر نبی کی قبر کے پاس کوئی فرض یا نفل نماز پڑھنا مستحب نہیں ہے، بلکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔“
(مجموع الفتاوى : 62/27)
❀ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ ( 744 ھ) فرماتے ہیں:
هذه الأحاديث تدل كلها على تحريم تخصيص القبور بما يوجب انتيابها وكثرة الاختلاف إليها من الصلاة عندها واتخاذها مساجد، وإتخاذها عيدا، وإيقاد السرج عليه والصلاة إليها والذبح عندها، ولا يخفى مقاصد هذه الأحاديث وما اشتركت فيه على من شم رائحة التوحيد المحض .
”یہ تمام احادیث بتاتی ہیں کہ قبروں پر ان چیزوں کا اہتمام حرام ہے، جن کی وجہ سے ان کی طرف آنا جانا زیادہ ہو، مثلا نماز پڑھنے کے لیے جانا، انہیں سجدہ گاہ اور میلہ گاہ بنانا، ان پر چراغ جلانا، ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا اور ان کے پاس ذبح کرنا۔ ان احادیث کے مطالب اور ان کا مشتر کہ مقصد اس شخص سے مخفی نہیں ، جس نے خالص تو حید کی خوشبو سونگھی ہو۔“
(الصارم المنكي في الرد على السبكي ، ص 310)