کیا والد بچے کو دیا ہوا عطیہ واپس لے سکتا ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا والد بچے کو دیا ہوا عطیہ واپس لے سکتا ہے
ہاں والد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دیا ہوا کوئی عطیہ یا تحفہ واپس لے سکتا ہے۔ ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
لا يحل للرجل أن يعطى العطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده
”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے سوائے والد کے جو وہ اپنے بچے کو دیتا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3023 ، كتاب البيوع: باب الرجوع فى الهبة ، ابو داود: 3539 ، ترمذي: 2133 ، نسائي: 3703 ، ابن ماجة: 2377 ، ابن حبان: 5101 ، حاكم: 46/2 ، شرح معاني الآثار: 79/4 ، دار قطني: 42/3 ، بيهقى: 180/6]
ایک ضعیف روایت
جس روایت میں ہے کہ ”ذی محرم کو دیا ہوا عطیہ واپس نہیں لیا جائے گا ۔“
وہ ضعیف و نا قابل حجت ہے۔
[حاكم: 52/2 ، دار قطني: 44/3 ، نيل الأوطار: 70/4]
اور (ہدیہ کے وقت ) اولاد کے درمیان مساوات کو ملحوظ رکھنا واجب ہے
➊ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن أباه أتى به إلى رسول الله فقال: إنى نحلت ابني هذا غلاما فقال: أكل ولدك نحلت مثله ، قال: لا ، قال: فارجعه
”ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہدیہ دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر (اس سے بھی ) واپس لے لو ۔“
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو ۔“
[بخاري: 2586 ، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها: باب الهبة للولد ، مسلم: 1623 ، احمد: 268/4 ، مؤطا: 751/2 ، ترمذي: 1367 ، ابن ماجة: 2376 ، حميدي: 411/2 ، شرح معاني الآثار: 84/4 ، دار قطني: 42/3 ، بيهقى: 176/6 ، شرح السنة: 425/4]
➋ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
اعدلوا بين ابنائكم
”اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3028 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يفضل بعض ولده فى النحل ، ابو داود: 3544 ، نسائي: 262/6 ، احمد: 275/4]
(جمہور ) اولاد کے درمیان برابر عدل و انصاف سے کام لینا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں حکم استحباب کے لیے ہے۔ (اور انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے دس جوابات دیے ہیں جسے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اور امام
شوکانیؒنے نیل الأوطار میں نقل فرمایا ہے ۔
[فتح البارى: 531/5 ، نيل الأوطار: 65/4]
(ابوحنیفهؒ ، شافعیؒ) اولاد کے درمیان انصاف نہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر ایسا کر دیا جائے تو نافذ ہو جائے گا ۔
[شرح السنة: 297/8]
(راجح) حدیث میں حکم وجوب کے لیے ہے کیونکہ اسے وجوب سے پھیر کر استحباب کی طرف منتقل کرنے والی کوئی دلیل موجود نہیں۔
(ابن قیمؒ) جو بات حدیث میں ہے اس سے زیادہ ظاہر و راجح کوئی قیاس نہیں ہو سکتا۔
[أعلام الموقعين: 329/2]
(نوویؒ) انہوں نے حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرنے سے پہلے بیان کیا ہے کہ :
إذا أعطى بعض ولده شيئا لم يجز حتى يعدل بينهم ويعطى الآخر مثله
”اپنے بعض لڑکوں کو اگر کوئی چیز ہبہ میں دی تو جب تک انصاف کے ساتھ تمام لڑکوں کو برابر نہ دے یہ ہبہ جائز نہیں ہو گا ۔“
[بخاري: قبل الحديث/ 2586]
کسی شرعی رکاوٹ کے بغیر ہدیہ واپس کرنا مکروہ ہے
جیسا کہ مسلمان تو در کنار کفار و مشرکین کے ہدیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائے اور یہ صیح احادیث سے ثابت ہے اس لیے بلا وجہ ہدیوں کو ٹھکرانا نہیں چاہیے ۔
شرعی موانع میں ، اہل سلطہ اشخاص کو مائل کرنے کے لیے ہدیے (یعنی رشوت ) ، یا کاہن کے معاوضہ سے ، زانیہ کی اجرت یا کسی حرام چیز سے دیے ہوئے ہدیے شامل ہیں ۔
[الروضة الندية: 349/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1