کیا والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا جائز ہے؟ مکمل شرعی رہنمائی
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل جلد 01

سوال

کیا بیوی کو والدین کے کہنے پر طلاق دینا درست ہے جبکہ میاں بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا نہ ہو؟

 جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ مرد اپنی عقل و فہم میں عورت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ اپنی مصلحت و مفاد کو دیکھتے ہوئے بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔

والدین کے بہت سے حقوق اولاد پر واجب ہیں، اور ان میں سب سے بڑا حق ان کی اطاعت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طلاق جیسے معاملے میں بھی والدین کی اطاعت لازم ہے؟ اس بارے میں ہمیں دو اہم واقعات پیش نظر رکھنے چاہییں:

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا واقعہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا کہا تھا:

صحیح بخاری: 336

اس واقعہ میں یہ بات واضح ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی بیوی ناشکری کا مظاہرہ کر رہی تھی، اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو طلاق کا حکم دیا۔

حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عمرؓ کا واقعہ

حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا، جس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا:

"اپنے والد کی اطاعت کرو۔”
سنن ترمذی: 950

یہاں بھی حضرت عمرؓ کی بصیرت اور دور اندیشی پر اعتماد کیا گیا، اور اس بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے والد کی اطاعت کا حکم دیا۔

والدین کی نیک نیتی اور حالات کا جائزہ ضروری ہے

اگر ایسی صورت ہو کہ والدین اپنے بیٹے کو اس کی بیوی کے شر، اخلاقی خرابی، یا دیگر سنجیدہ اسباب کی بنیاد پر طلاق دینے کا کہیں، تو ان کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر والدین کسی بغض، حسد، یا غلط فہمی کی بنیاد پر بغیر کسی معقول عذر کے طلاق کا مطالبہ کریں، تو ان کی یہ بات ماننا ضروری نہیں ہے۔

کیونکہ ایسی صورت میں بیوی کو بلا وجہ طلاق دینا ظلم کے زمرے میں آتا ہے، اور:

"خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔”

امام ابن تیمیہ کا فتویٰ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:

"ایک آدمی کی شادی ہو چکی ہے، اس کے بچے بھی ہیں، مگر اس کی ماں اپنی بہو کو ناپسند کرتی ہے اور اپنے بیٹے سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ کیا شرعاً اس پر عمل کرنا جائز ہے؟”

امام ابن تیمیہ نے جواب دیا:

"ماں کے کہنے پر طلاق دینا حرام ہے۔ ماں کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے، لیکن طلاق کا حکم دینا نیکی کے دائرے میں نہیں آتا۔”
مجموع الفتاویٰ: 33/112

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول

ایک شخص نے امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا:

"میرے والد نے مجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔”

امام احمدؒ نے فرمایا:

"اسے طلاق مت دو۔”
اس شخص نے کہا: "لیکن حضرت عمرؓ نے بھی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو طلاق کا حکم دیا تھا۔”

تو امام احمدؒ نے فرمایا:

"اگر تمہارے والد حضرت عمرؓ جیسے بن جائیں، تب ایسا کرنا ٹھیک ہوگا۔”
الآداب الشرعیۃ لابن مفلح: 1/447

خلاصہ اور نتیجہ

مندرجہ بالا تمام دلائل اور فتاویٰ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

◈ اگر والدین طلاق کا حکم کسی شرعی یا معقول وجہ سے دیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہو سکتا ہے۔

◈ لیکن اگر والدین کا طلاق کا مطالبہ کسی دشمنی، نادانی، یا غیر معقول بنیاد پر ہو، تو بیوی کو طلاق دینا نہ صرف ظلم ہو گا بلکہ والدین کی ایسی بات نہ ماننا نافرمانی شمار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے