کیا وارث کے لیے وصیت کرنا جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے راہنمائی
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا وارث کے لیے وصیت کرنا جائز ہے؟

جواب :

میت کی جانب سے اگر کوئی وصیت ہو، یا قرض ہو تو اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾
(النساء: 11)
”(مفروضہ حصص اس وقت نکالے جائیں گے)، جب وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کر دی جائے اور قرض جو اس پر واجب ہو، ادا کر دیا جائے۔“
یہ بھی یاد رہے کہ وصیت غیر وارث کے حق میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی تک کی جا سکتی ہے۔ وارث کے لیے وصیت کرنا درست نہیں، اس لیے کہ ورثا کے حصص اللہ وحدہ لا شریک لہ نے متعین کر دیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث
(سنن دارمی کتاب الوصایا، باب الوصیة للوارث ح 3262 وفي النسخة الأخرى ح 3260، ابو داؤد ح 3565، ترمذی ح 2120-2121)
”خبر دار! یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے