سوال:
کیا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آہستہ آمین کا ذکر ہے؟
جواب:
مسند الإمام أحمد (316/4)، سنن الترمذي (248)، مسند الطيالسي (1024)، سنن الدارقطني (334/1، ح: 1256)، المستدرك على الصحيحين (232/2) وغیرہ میں امام شعبہ رحمہ اللہ نے ”وأخفى بها صوته“ کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ یہ الفاظ امام شعبہ کی خطا ہیں، جبکہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ”مد بها صوته“ (بلند آواز سے آمین کہی) کے الفاظ بیان کیے ہیں، یہی درست ہیں، انہیں بوجوہ ترجیح حاصل ہے۔
وجه اول:
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں امام ابو زرعہ رحمہ اللہ سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا:
”اس مسئلے میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی حدیث اصح ہے۔“
(سنن الترمذي تحت الحديث: 248)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے متن میں امام شعبہ رحمہ اللہ کی خطا واضح ہے۔“
(السنن الكبرى: 57/2)
❀ اسی لیے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں ائمہ حدیث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔“
(إعلام الموقعين: 286/2)
❀ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امام شعبہ رحمہ اللہ نے جو یہ کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز پست کی، یہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی خطا ہے۔“
(التمييز، ص: 48)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حدیث کا علم رکھنے والے متفق ہیں کہ شعبہ اور سفیان میں اختلاف ہو جائے، تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بات ہی مانی جائے گی۔“
(الخلافيات: 64/2، مختصرہ)
❀ نیز فرماتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ جیسے حفاظ کا اتفاق ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کرنے میں خطا کی ہے۔ یہی روایت علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ بن کہیل رحمہما اللہ نے بھی بیان کی ہے اور وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم نوا ہیں۔“
(معرفة السنن والآثار: 360/2)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حفاظ حدیث متفق ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کو اس حدیث میں غلطی لگی ہے۔“
(خلاصة الأحكام: 381/1)
❀ امام شعبہ رحمہ اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے:
”سفیان مجھ سے بڑے حافظ تھے۔“
(سنن أبي داود: 3339، وسنده صحيح)
❀ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر سفیان ثوری سے کسی کا اختلاف ہو جائے، تو سفیان ثوری کو ترجیح حاصل ہوگی۔ میں نے کہا: شعبہ اختلاف کریں تب بھی؟ فرمایا: جی ہاں، تب بھی۔“
(تاريخ يحيى بن معين برواية الدوري: 364/3، ت: 1771)
❀ امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مجھے شعبہ سے محبوب کوئی نہیں۔ میں کسی کو ان کا ہم پلہ نہیں مانتا، مگر جب شعبہ اور سفیان ثوری کا اختلاف ہو، تو میں سفیان ثوری کا قول لیتا ہوں۔“
(تقدمة الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 63/1، وسنده صحيح)
❀ خود امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا خالفني سفيان فى حديث فالحديث حديثه
”سفیان حدیث میں میری مخالفت کریں، تو انہی کی بات قبول ہوگی۔“
(تقدمة الجرح والتعديل: 63/1، وسنده صحيح)
وجہ ثانی :
❀ ابو الولید طیالسی رحمہ اللہ امام شعبہ رحمہ اللہ سے سفیان والی روایت کے موافق الفاظ بیان کرتے ہیں۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إنه صلى خلف النبى صلى الله عليه وسلم، فلما قال: ولا الضالين، قال آمين، رافعا بها صوته
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی، جب آپ نے”ولا الضالين“ کہا، تو بلند آواز سے آمین کہا۔“
(السنن الكبرى للبيهقي: 58/2، وسنده صحيح)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح “کہا ہے۔
(معرفة السنن والآثار: 390/2)
❀ نیز فرماتے ہیں:
”ممکن ہے امام شعبہ رحمہ اللہ کو اپنی خطا کا علم ہو گیا ہو اور انہوں نے متن میں درستی کر لی ہو۔“
(الخلافيات: 65/2، مختصرہ)
❀ امام شعبہ رحمہ اللہ سے ان کے دو شاگردوں وہب بن جریر رحمہ اللہ اور عبد الصمد بن عبد الصمد رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی، تو اس میں خفض یا خفی کے الفاظ بیان نہیں کیے، بلکہ قال: آمين یعنی ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی“، کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
(صحيح ابن حبان: 1805، وسنده صحيح)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس پر ”باب ان یجہر بامين“ کا باندھا ہے۔ واضح رہےکہ سفیان کی روایت کے دو شاہد ہیں۔ شعبہ کی روایت کا کوئی شاہد نہیں۔
❀ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”شعبہ یہاں خطا کھا گئے ہیں۔ وہ حفظ سے بیان کرتے تھے، کتاب کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ روایت بالمعنیٰ کرتے تھے، الفاظ حدیث بیان نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ فقیہ نہیں تھے۔ اس لیے جب کسی حدیث کا معنی سمجھنے سے عاجز آجائیں، تو اہل فقہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جیسا کہ امام مالک اور امام سفیان ثوری رحمہما اللہ ہیں۔“
(شرح مشكل الآثار: 6/4، وفي نسخة: 17/7)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی دو روایات نے متابعت بھی کر رکھی ہے، جبکہ شعبہ کی کوئی متابعت نہیں کی گئی۔ اسی لیے نقاد محدثین نے بالجزم سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کو اصح قرار دیا ہے۔“
(التلخيص الحبير: 237/1)