سوال کا مفصل بیان
ایک اہل حدیث لڑکے کی شادی کو تین سال گزر چکے ہیں۔ حال ہی میں لڑکے کے گھر والوں کی بیٹی، جو دینی تعلیم حاصل کر رہی تھی، اپنی تعلیم مکمل کر چکی ہے۔ اب لڑکے والوں کے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ جن کے گھر سے ہم نے اپنے بیٹے کے لیے بیوی لی تھی، ان کے ہاں بھی ایک لڑکا ہے جو نہ صرف نیک سیرت و صورت کا حامل ہے بلکہ ایک عالم دین بھی ہے اور دینی عمل پر بھی قائم ہے۔
اب سوال یہ اٹھا ہے کہ:
❀ کیا وہ اپنے بیٹے کی دلہن کے گھر اپنی بیٹی کا رشتہ دے سکتے ہیں؟
❀ اگر ایسا کر لیں تو کیا یہ نکاح "شغار” کے زمرے میں آئے گا؟
❀ واضح رہے کہ تین سال پہلے جب پہلا نکاح ہوا تھا تو ایسی کوئی بات زیر بحث نہیں آئی تھی کہ اگر تم اپنی بچی دو گے تو ہم بھی اپنی بچی تمہیں دیں گے، نہ ہی کوئی اس طرح کی شرط رکھی گئی تھی۔
❀ مزید یہ کہ اگر یہ نکاح شرعی لحاظ سے درست ہو، لیکن لڑکے کے والدین اس رشتے کے خلاف ہوں، جبکہ لڑکا، لڑکی اور لڑکی کے والدین راضی ہوں، تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں بیان کردہ حالات نکاحِ شغار کے زمرے میں نہیں آتے۔
❀ کیونکہ تین سال قبل پہلے نکاح کے وقت کوئی مشروط گفتگو نہیں ہوئی تھی، اس لیے اس رشتے کو نکاحِ شغار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
❀ نکاحِ شغار وہ ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے کی لڑکی کا نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ بھی اپنی لڑکی کا نکاح کرے گا، بغیر مہر کے یا مہر کی مخصوص قید کے ساتھ۔
❀ جبکہ یہاں کوئی شرط نہیں رکھی گئی اور نہ ہی ماضی میں ایسی کوئی نیت یا بات چیت ہوئی، اس لیے یہ نکاح شرعی طور پر جائز ہے۔
والدین کی مخالفت کی صورت میں شرعی رہنمائی:
اگر والدین اس رشتے کے خلاف ہیں، مگر لڑکا، لڑکی اور لڑکی کے والدین اس رشتے پر راضی ہیں تو:
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَصَاحِبۡهُمَا فِي ٱلدُّنۡيَا مَعۡرُوفٗاۖ﴾
(لقمان: 15)
ترجمہ:
"اور دنیا میں ان کے ساتھ دستور کے موافق رہ۔”
❀ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی فرمانبرداری اور حسنِ سلوک لازم ہے، لیکن اگر والدین کی مخالفت غیر شرعی ہو، یعنی کسی ناجائز بنیاد پر ہو، تو ان کی اطاعت لازم نہیں۔
❀ البتہ حسن سلوک اور ادب و احترام ہر حال میں باقی رکھنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب