سوال:
کیا نماز وتر واجب ہے؟
جواب:
نماز وتر سنت ہے، احادیث، آثار اور اہل علم کا اجماع اس پر دلیل ہیں۔
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے، صرف نعمان بن ثابت (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) نے ان کی مخالفت کی ہے اور وتر کو واجب کہا ہے۔ نعمان کی یہ بات احادیث صحیحہ کے خلاف تو ہے ہی، تمام مسلمان علما حتیٰ کہ جہلا کے بھی مخالف ہے۔ ہمارے علم کے مطابق ان سے پہلے کسی نے وتر کو واجب نہیں کہا، اس معاملے میں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی مخالفت کی ہے اور عام اہل علم کی موافقت۔“
(الأوسط: 92/8، ح: 2544)
❀ علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ (587ھ) فرماتے ہیں:
قال عامة الفقهاء: إن الوتر سنة لما أن كتاب الله، والسنن المتواترة والمشهورة ما أوجبت زيادة على خمس صلوات.
”تمام فقہا نے کہا ہے کہ وتر سنت ہے، کیونکہ قرآن کریم اور مشہور و متواتر سنت نے پانچ سے زائد نماز میں فرض نہیں کیں۔“
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: 91/1)
❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إن الوتر ليس بحتم كالصلاة، ولكنه سنة، فلا تدعوه.
”وتر فرض نہیں، بلکہ سنت ہے، البتہ آپ اسے چھوڑیے گا نہیں۔“
(مسند الإمام أحمد: 107/1، سنن الدارمي: 1620، واللفظ له، وسنده حسن)
❀ حافظ بوصیری رحمہ اللہ نے اس کی سند ”صحیح “قرار دی ہے۔
(اتحاف الخيرة المهرة: 1732)
❀ عبدالرحمن بن ابو عمرہ رحمہ اللہ نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے وتر کی بابت سوال کیا، تو فرمایا:
أمر حسن، عمل به النبى صلى الله عليه وسلم والمسلمون من بعده، وليس بواجب.
”وتر اچھا عمل ہے، اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا، مسلمانوں نے بھی ادا کیا ہے، تاہم واجب نہیں۔“
(المستدرك على الصحيحين للحاكم: 300/1، وسنده حسن)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1068) نے اسے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (300/1) نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح “کہا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ عبد اللہ بن صنابحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”ابو محمد نے کہا کہ وتر واجب ہے۔ اس پر سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو محمد کو غلطی لگی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ عزوجل نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جس نے اچھی طرح وضو کیا، انہیں بر وقت ادا کیا، رکوع و سجود اطمینان سے کیے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے معاف فرمائے گا اور ایسا نہ کرنے والے کے لیے کوئی وعدہ نہیں، چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو عذاب دے۔“
(مسند الإمام أحمد: 317/5، سنن أبي داود: 425، وسنده صحيح)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن“ اور ”جید“ کہا ہے۔
(جامع المسانید والسنن: 559/4، ح: 5763)
❀ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ تراویح اور وتر پڑھائے، اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے۔ امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے، لیکن صبح تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مسجد میں اس لیے جمع ہوئے تھے کہ آپ تشریف لائیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے۔ فرمایا:
إني خشيت أو كرهت أن يكتب عليكم الوتر.
”مجھے خدشہ ہوا کہ وتر فرض نہ ہو جائیں۔“
(صحيح ابن خزيمة: 1070، صحيح ابن حبان: 2409، وسنده حسن)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
يدل هذا الحديث على أن الوتر وقيام الليل غير مكتوب فرض على الناس.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ وتر اور قیام اللیل لوگوں پر فرض نہیں۔“
(الأوسط: 168/5)
❀ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نجد کی طرف سے ایک پراگندہ بال شخص آیا، اس کی آواز کی گونج تو سنائی دیتی تھی مگر مجھے نہ پتہ چلا کہ اس نے کیا کہا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا اور اسلام کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس نے کہا: ان کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے؟ فرمایا:
لا، إلا أن تطوع.
”نہیں! البتہ نفل پڑھے جا سکتے ہیں۔“
(صحيح البخاري: 46، صحيح مسلم: 11)
❀ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا رہے ہیں کہ پانچ سے زائد جو نماز ہے، وہ نفل ہے۔“
(صحيح ابن خزيمة: 136/2)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبح على الراحلة قبل أى وجه توجه، ويوتر عليها، غير أنه لا يصلي عليها المكتوبة.
”سواری کا رخ جدھر بھی ہوتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نفل ادا کر لیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر وتر تو پڑھ لیتے تھے، فرض نہیں۔“
(صحيح البخاري: 1098، صحيح مسلم: 700/39)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس حدیث کے مطابق وتر نفل ہیں، وتر کو فرض وہی کہتا ہے، جس نے سنت کی مخالفت کرنی ہے اور اہل علم سے جدا راستہ اختیار کرنا ہے۔“
(الأوسط: 247/5)
❀ مسلم مولیٰ عبد قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا:
آپ وتر کو سنت سمجھتے ہیں؟ کہا: سنت کا مطلب؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھے اور مسلمان پڑھتے ہیں۔ کہنے لگے: میں آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا، بلکہ یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا وتر سنت ہے؟ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عقل کام کرتی ہے؟ کہہ رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے اور مسلمان پڑھتے ہیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 295/2، 236/14، مسند أحمد: 29/2، وسنده صحيح)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
الوتر سنة مؤكدة باتفاق المسلمين، ومن أصر على تركه فإنه ترد شهادته.
”مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وتر سنت مؤکدہ ہے۔ جو اس کے ترک پر اصرار کرے، اس کی گواہی قبول نہیں۔“
(مجموع الفتاوى: 88/23)