مسئلہ: رفع الیدین اور عدمِ رفعِ یدین — دونوں عمل کا حکم
سوال:
کیا یہ بات درست ہے کہ نماز میں رفع الیدین (یعنی کندھوں تک ہاتھ اٹھانا) اور عدم رفع الیدین (یعنی نہ اٹھانا) دونوں اعمال احادیث سے ثابت ہیں؟ نیز، اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کبھی رفع الیدین کرتا ہے اور کبھی نہیں؟
(سائل: طارق علی بروہی، کراچی)
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رفع الیدین کا ثبوت:
نماز میں تکبیرِ اُولیٰ، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرنا صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
مراجع:
◈ قطف الازہار المتناثرہ للسيوطی
◈ لقط اللآلي المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني
◈ نورالعین فی (اثبات) مسئلہ رفع الیدین (ص 82، 87، جدید نسخہ ص 122، 123)
رفع الیدین کے متواتر ہونے کا اعتراف دیوبندی عالم انور شاہ کشمیری نے بھی کیا ہے۔
نیل الفرقدین، ص 22
متواتر حدیث، چاہے وہ یونانی علم کلام والوں کے نزدیک ہو یا اصولِ فقہ کے ماہرین کے نزدیک، قطعی اور یقینی ہوتی ہے۔ اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا، جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔
مخالفین کے دلائل اور ان کا جائزہ:
➊ ایسی صحیح روایات جن میں رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں:
مثلاً صحیح مسلم میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث (جس میں سرکش گھوڑوں کی دُموں کا ذکر ہے):
مولانا محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:
"باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے”
(تقاریر شیخ الہند، ص 65، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ریلوے روڈ، ملتان)
مولانا محمد تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں:
"لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے۔ کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عند السلام ہی سے متعلق ہے”
(درس ترمذی، جلد 2، صفحہ 36)
➋ وہ روایات جن سے ترک رفع الیدین کا اشارہ ملتا ہے:
مثلاً حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ:
لیکن اصول حدیث کی روشنی میں یہ تمام روایات ضعیف اور مردود ہیں۔
تفصیلی رد اور تحقیق:
راقم الحروف نے نورالعینین (ص 92 تا 106، جدید طبع ص 125 تا 158) میں کئی دلائل کے ساتھ سفیان ثوری کی سند سے منسوب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ضعیف و مردود ثابت کیا ہے۔
"یہ حدیث علت قادحہ کے ساتھ معلول ہے اور سنداً و متناً دونوں طرح سے ضعیف ہے”
(ص 96، جدید طبع ص 130)
ایک مجہول شخص "ابو بلال جھنگوی” نے "تحفہ اہلحدیث (نمبر 2)” نامی کتابچہ لکھا، جسے ادارہ "العزیز”، سیالکوٹ روڈ، گوجرانوالہ سے شائع کیا گیا۔
صفحہ 159 پر اس نے لکھا:
"زبیر علی زئی۔۔۔ نے نورالعینین میں صحیح کہا”
حالانکہ راقم الحروف نے اس روایت کو نہ "صحیح” کہا اور نہ "حسن”، بلکہ ضعیف اور مردود کہا ہے۔
یہ مجہول مصنف کذاب اور ساقط العدالت ہے۔
یہ شخص بعد میں معروف تو ہوا، لیکن جھوٹ اور افتراء کے ساتھ۔ اس کا نام ابو بلال محمد اسماعیل جھنگوی ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
ماہنامہ الحدیث، شمارہ 35، ص 51 تا 60: "اسماعیل جھنگوی کے پندرہ جھوٹ”
ذاتی تجربہ:
گزشتہ ہفتے ایک صاحب محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی کی کتاب "اختلاف امت اور صراط مستقیم” لے آئے۔
جب راقم الحروف نے مسند الحمیدی اور مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخوں کی تحقیق کی، تو دیوبندی مذہب کو چھوڑ کر کتاب و سنت کا راستہ اختیار کیا۔
والحمد للہ
خلاصہ اور تنبیہ:
رفع الیدین قبل الرکوع وبعدہ کا ترک، نہ تو منسوخ ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ممنوع۔
مزید تفصیل کے لیے مطالعہ کریں:
◈ جزء رفع الیدین للإمام البخاری وغیرہ
تنبیہ:
تحقیق بالا سے واضح ہوا کہ رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین ہمیشہ کرنا چاہیے اور کبھی بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔
جو شخص کبھی رفع الیدین کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا، اس کا یہ طرز عمل صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔
(شہادت: فروری 2000)
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب