صلاة الفتح
بعض متاخرین نے فاتح امام یا امیر کے لئے فتح کی نماز مستحب قرار دی ہے۔ اس پر دلیل موجود نہیں۔ اس بارے میں احادیث کا جائزہ ملاحظہ ہو:
دلیل نمبر (1)
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے:
لما فتح خالد الحيرة صلى صلاة الفتح ثماني ركعات لا يسلم فيهن، ثم انصرف
”سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ شہر فتح کیا، تو ایک سلام سے آٹھ رکعت نماز فتح ادا کی، پھر چل دیئے۔“
(تاريخ الطبري : 366/3-367، تاريخ دمشق لابن عساكر : 247/16)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ سیف بن عمر کوفی بالا تفاق ضعیف و متروک ہے۔
➋ شعیب بن ابراہیم کوفی ”مجہول“ ہے۔
❀ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
له أحاديث وأخبار، وهو ليس بذلك المعروف ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيرة وفيه بعض النكرة لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل على السلف
”اس کی کچھ احادیث اور اخبار ہیں، یہ معروف راوی نہیں ہے۔ اس کی احادیث اور خبروں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے، ان میں بھی کچھ نکارت پائی جاتی ہے، کیونکہ اس کی اخبار اور احادیث میں سلف پر طعن موجود ہے۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال : 7/5)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه جهالة
”یہ مجہول ہے۔“
(المغني في الضعفاء : 298/1)
➌ عمر بن محمد کا تعین نہیں۔
دلیل نمبر (2)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایوان کسریٰ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اہل اسلام کے ساتھ فتح کی آٹھ رکعت نماز ادا کی۔
(تاريخ الطبري : 16/4)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ سیف بن عمر با تفاق محدثین کذاب اور متروک ہے۔
➋ شعیب بن ابراہیم رفاعی کوفی مجہول ہے۔
❀ فتوح الشام للواقدی (187/2) میں اس کی ایک جھوٹی سند بھی ہے۔
محمد بن عمر واقدی خود کذاب ہے۔ لہذا کتاب غیر معتبر ہے۔
واقدی سے اوپر سند کا تعارف نہیں۔
فائدہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر فتح مکہ کے موقع پر جو آٹھ رکعات ادا کی تھیں، دو نماز چاشت تھی۔